افغانستان سے فوجیوں کا انخلا اب بھی ’مشروط‘ ہے، امریکی جنرل

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2020
ہم سوچ سمجھ کر اور ذمہ داری کے ساتھ جنگ ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، امریکی جوائنٹ چیفس چیئرمین — فائل فوٹو/اے ایف پی
ہم سوچ سمجھ کر اور ذمہ داری کے ساتھ جنگ ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، امریکی جوائنٹ چیفس چیئرمین — فائل فوٹو/اے ایف پی

پینٹاگون کے اعلیٰ سطح کے جنرل کا کہنا ہے کہ افغانستان سے مزید امریکی فوجیوں کے انخلا کا انحصار تشدد میں کمی اور فروری میں طالبان کے ساتھ طے پائی گئیں دیگر شرائط پر ہوگا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق جوائنٹ چیفس چیئرمین جنرل مارک مِلے نے سرکاری ’این پی آر‘ ریڈیو کو انٹرویو کے دوران زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے آخری ساڑھے 4 فوجیوں کا انخلا طالبان کی طرف سے حملوں میں کمی اور کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں پیشرفت پر منحصر ہے۔

ان کی جانب سے یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ کہنے کے پانچ روز بعد سامنے آئی ہے کہ وہ امریکی فوجیوں کو کرسمس تک واپس وطن میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

مارک مِلے نے این پی آر کو بتایا کہ ’یہ پورا معاہدہ اور منصوبے مشروط ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم سوچ سمجھ کر اور ذمہ داری کے ساتھ جنگ ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسا ان شرائط کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں جو افغانستان میں داؤ پر لگے ہوئے امریکا کے اہم قومی سلامتی کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت دیں۔‘

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی ایران کو افغان امن مذاکرات میں شرکت کی دعوت

ان کا کہنا تھا کہ فروری میں ہونے والے معاہدے کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد پہلے ہی 12 ہزار سے کم کردی گئی ہے اور مزید کا انحصار طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیشرفت اور تشدد میں بڑے پیمانے پر کمی پر ہے۔

امریکی جنرل نے کہا کہ ’یہ صدر کا فیصلہ تھا کہ فوجیوں کے انخلا کو مشروط کیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پرتشدد کارروائیوں میں کئی سال پہلے کی نسبت واضح کمی آئی ہے لیکن گزشتہ چار سے پانچ ماہ کے دوران یہ کمی ناکافی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن نے کہا تھا کہ اگلے سال کے اوائل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار تک کردی جائے گی۔

تاہم بدھ کے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں تمام فوجیوں کو 25 تک واپس لانے کے عزم کا اظہار کیا۔

امریکی صدر نے یہ بیان 3 نومبر کو شیڈول صدارتی انتخاب کے تناظر میں دیا، جبکہ اتنے مختصر عرصے میں امریکی فوج کا مکمل انخلا ناقابل عمل نظر آتا ہے اور اس سے کابل حکومت کی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پوزیشن کمزور ہوگی۔

مزید پڑھیں: امن مذاکرات کے باوجود افغانستان میں جھڑپیں جاری

امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں ایک شرط شہری علاقوں میں شدت پسندوں کی جانب سے حملے روکنے کی بھی تھی۔

تاہم گزشتہ ایک ہفتے کے دوران صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کے نواح میں شدید لڑائی دیکھی جارہی ہے اور امریکی فورسز نے طالبان کے جنگجوؤں پر فضائی حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔

مارک ملے نے فوجیوں کے انخلا کی تعداد سے متعلق بات کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ مستقبل میں اس کا فیصلہ صدر کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عسکری قیادت شرائط سے متعلق اپنی بہترین عسکری تجاویز دے رہے ہیں تاکہ صدر باخبر ہوکر، سمجھ بوجھ سے اور ذمہ دارانہ فیصلے کر سکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں