جسٹس عیسیٰ پر الزام نے عدالتی نظام کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا تھا، جسٹس فیصل عرب

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2020
جسٹس فیصل عرب— فوٹو بشکریہ سندھ ہائی کورٹ
جسٹس فیصل عرب— فوٹو بشکریہ سندھ ہائی کورٹ

اسلام آباد: جسٹس فیصل عرب نے یہ آبزرویشن دی ہے کہ لندن کی 3 ظاہر نہ کی ہوئی جائیدادوں سے متعلق سوال کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حوالے کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) پر غور کرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت تحقیقات کے لیے ایف بی آر کی رپورٹ پر عمل کرنے کے لیے کافی معلومات موجود ہیں یا نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنے پر متفرق درخواستوں کا فیصلہ کرنے والے 10 ججز پر مشتمل بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ کیا کہ یہ قرار دیے جانے کے بعد کہ اس ریفرنس کی قانون میں کوئی جگہ نہیں، 19 جون کے مختصر حکم نامے میں فراہم کردہ طریقہ کار کو اپنائے بغیر ان کارروائیوں کو نمٹانے کا نتیجہ جج کیلئے حقیقی معافی کے حصول کے طور پر نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ

جسٹس فیصل عرب نے لکھا کہ جسٹس عیسیٰ وکلا برادری میں بہت احترام رکھتے ہیں لیکن ان کی مالی ساکھ پر سوالات اٹھے اور اس وجہ سے یہ سب سے زیادہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ اور ان کی اہلیہ، جو ان کے ساتھ گھر کے رکن کی حیثیت سے رہتی ہیں، انہیں اس موقع کو اس داغ کو صاف کرنے کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔

انہوں نے لکھا کہ پاکستان کے ٹیکس کے دائرہ اختیار سے باہر لندن کی جائیدادوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے رقم کے وسائل کے بارے میں مکمل تفصیلات بیان کرنا، ان الزامات کو غلط ثابت کرنے اور عوام کے ذہنوں سے ان شکوک و شبہات کو دور کرنے کا واحد مناسب جواب ہو گا۔

جسٹس فیصل عرب نے اپنے نوٹ میں یہ آبزرو کیا کہ کسی بھی وجہ سے اگر عدالتی مداخلت کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 209(5) کو غیر مؤثر بنایا گیا تو یہ ان لوگوں کی نظروں میں قدر و منزلت کھو بیٹھے گا جن کے لیے اسے بنایا گیا ہے۔

انہوں نے روشنی ڈالی کہ پاکستان کا آئین بنانے والوں کو یقین ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کے عمل کو پارلیمنٹ کے بجائے ججوں کے آزاد ادارے کے ہاتھ میں چھوڑنا چاہیے تاکہ ان پر کسی قسم کے سیاسی دباؤ کو روکا جاسکے۔

جسٹس فیصل عرب نے لکھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ادارہ عدلیہ میں سے اعلیٰ عدلیہ کے قیام کے لیے آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت تشکیل دیا گیا تھا اور عدالتی احتساب کے لیے جو طریقہ کار فراہم کیا گیا تھا وہ بالواسطہ انہیں عوام کی نظروں میں جوابدہ بناتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

انہوں نے کہا کہ یہ ججوں کی انفرادی آزادی اور مجموعی طور پر ادارے کی آزادی کے لحاظ سے آزاد عدلیہ کے اصول سے مطابقت رکھتا ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد یقینی بناتا ہے۔

جسٹس فیصل عرب کے مطابق آرٹیکل 209 (7) کی رو سے اگر اسے آئین کے آرٹیکل 211 کے ساتھ پڑھا جائے تو اعلیٰ عدلیہ کے جج پر لگائے گئے الزامات کی بنیاد کی جانچ پڑتال اور نتائج اخذ کرنا خصوصی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے، مزید یہ کہ کوئی بھی عدالت اس طرح کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔

انہوں نے آبزرو کیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کے خلاف لگائے گئے الزامات کے میرٹس کو جانچنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک مردہ فورم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، مزید یہ کہ ہر جج، بلا تفریق، عزت اور وقار کا مستحق ہے جو اس کے دفتر کا بھی حصہ ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جب اعلیٰ عدلیہ کے جج کی ساکھ پر آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت سوال اٹھایا گیا تو پھر نہ صرف ان کی ساکھ بلکہ پورے عدالتی ادارے کی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا دیا گیا، انہوں نے مشاہدہ کیا کہ جج کے خلاف تحقیقات کی کارروائی کا آغاز ہی نفسیاتی تکلیف اور اذیت کا باعث بنا تھا جو اس وقت تک جاری رہا جب تک ان کا نام کلیئر نہیں کردیا گیا جبکہ یہ تکلیف اس کے بعد بھی کچھ وقت تک جاری رہ سکتی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ 'بہرحال، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے طرز عمل کی نگرانی کے لیے فراہم کردہ طریقہ کار کے تقدس کا احترام کرنا ہوگا کیونکہ کسی بھی طرح سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو احتساب کے عمل سے مستثنیٰ نہیں کیا گیا‘۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

جسٹس فیصل عرب نے نوٹ کیا کہ مس کنڈکٹ (بدانتظامی) کے الزامات دنیا بھر میں اعلیٰ عدلیہ کے قابل ذکر ججوں کے خلاف لگائے گئے ہیں، کچھ متاثر ہوئے اور دوسروں کو کلیئر کردیا گیا۔

انہوں نے آبزرو کیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ہر جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کا احترام کرنا ہوگا جسے آئین کے تحت ان کے طرز عمل کے تحقیقات کی آئینی ذمہ داری سونپی گئی ہے، مزید یہ کہ یہ یہ اس بات کو یقین دلانے کے لیے کرنا چاہیے کہ ججز آئین کے محافظ کی حیثیت کے اپنے کردار کے مطابق کام کر رہے ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جب اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج یا ان کے گھر کے کسی رکن کے ملازمت پر رہتے ہوئے ملک میں یا بیرون ملک اثاثوں کے بارے میں ایسے حقائق عام ہوجاتے ہیں جن کا انکم ٹیکس حکام کو نہیں بتایا گیا تو جب تک اس معاملے کو اپنے اختتام تک نہیں پہنچایا جاتا اس وقت تک اس پورے واقعے کے اطمینان بخش اختتام کا احساس ہمیشہ غائب محسوس ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں