آسٹریا کی دو مساجد ویانا حملہ آور کی وجہ سے بند

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2020
ویانا حملے میں خاتون سمیت 4 افراد ہلاک ہوئے تھے—فوٹو:رائٹرز
ویانا حملے میں خاتون سمیت 4 افراد ہلاک ہوئے تھے—فوٹو:رائٹرز

آسٹریا کی حکومت نے رواں ہفتے دارالحکومت ویانا میں فائرنگ کرکے 4 افراد کو ہلاک کرنے والے حملہ آور کی آمد و رفت کے بعد شہر میں قائم دو مساجد کو بند کرنے کا حکم دے دیا۔

خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 3 نومبر کو آسٹریا میں دہائی بعد پہلی مرتبہ بدترین حملہ ہوا تھا جبکہ ایک حملہ آور کو پولیس نے ہلاک کردیا تھا جس کی شناخت 20 سالہ کوجٹم فیجزولائی کے نام سے ہوئی تھی۔

آسٹریا کے وزیر سوسین راب نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ مذہبی امور کے سرکاری دفتر کو ‘وزارت داخلہ کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ 3 نومبر کا حملہ آور اپنی رہائی کے بعد متعدد مرتبہ ویانا کی مساجد کا دورہ کر رہا ہے’۔

مزید پڑھیں: ویانا میں مسلح افراد کی 6 مقامات پر فائرنگ، خاتون سمیت 4 افراد ہلاک

ملت ابراہیم مسجد اور توحید مسجد بالترتیب ویانا کے مغربی علاقوں اوٹاکرنگ اور میڈلنگ میں واقع ہیں۔

سوسین راب کا کہنا تھا کہ مقامی خفیہ ایجنسی بی وی ٹی نے ‘ہمیں بتایا کہ ان مساجد کے دوروں سے حملہ آوروں میں انتہا پسندی میں اضافہ ہوا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ان میں ایک مسجد باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہے۔

اسلامک ریلیجیئس کمیونٹی آف آسٹریا نے اپنے بیان میں کہا کہ ایک رجسٹرڈ مسجد کو بند کیا جارہا ہے کیونکہ اس نے مذہبی عقائد اور اس کے آئین کے قواعد کو توڑا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی اداروں سے متعلق قومی قوانین کی بھی خلاف ورزی کی۔

ویانا کے پراسیکیوٹرز کے دفتر نے بیان میں کہا کہ حملے کے بعد گرفتار کیے گئے 16 میں سے 6 افراد کو رہا کردیا گیا ہے جبکہ دیگر ملزمان بدستور حراست میں ہیں اور حملہ آور کے تعلق پر تفتیش جاری ہے۔

رپورٹ کے مطابق ہلاک حملہ آور کوجٹم فیجزولائی آسٹریا اور مقدونیہ کی دوہری شہریت کا حامل تھا اور اس سے قبل شام میں سرگرم داعش میں شمولیت کی کوششوں پر اسے سزا بھی ہوئی تھی۔

'ناقابل برداشت غلطیاں'

آسٹریا کی حکومت نے حملہ آوروں سے متعلق خفیہ اطلاعات پر ناقابل برداشت غلطیوں کا اعتراف کر تے ہوئے کہا کہ اس کو بڑا خطرہ تصور کیا جاسکتا تھا اور قریب سے نگرانی کی جاسکتی ہے۔

وزیر داخلہ کیرل نیمیر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ویانا شہر کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ویانا پرووینشل آفس فار دی پروٹیکشن آف کانسٹی ٹیوشن اینڈ کاؤنٹر ٹیرارزم (ایل وی ٹی) کے سربراہ عارضی طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں جبکہ ایک تفتیش بھی کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پھر سے ویانا جانے کو دل چاہتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری نظر میں ناقابل برداشت غلطیاں سرزد ہوئی ہیں’۔

آسٹریا پہلے ہی تسلیم کرچکا ہے کہ سلوواکیہ سے ایسی خفیہ اطلاعات ملی تھیں کہ 20 سالہ مسلح شخص نے وہاں سے بارود خریدنے کی کوشش کی تھی۔

ویانا کے پولیس سربراہ گیہارڈ پہیورسٹل کا کہنا تھا کہ ‘جرمن خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے جرمنی میں موجود افراد کی نگرانی کی گئی جو گرمیوں میں آسٹریا میں رہے تھے اور یہاں حملہ آور سے بھی ملاقات کی تھی’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ان حقائق کو سلوواکیہ سے ملنے والی معلومات کو جوڑنے سے مشتبہ افراد کے خطرناک ہونے کے حوالے سے مختلف نتائج نکل سکتے ہیں’۔

پولیس سربراہ نے کہا کہ ان تمام جائزوں سے بہتر اقدامات کو یقینی ہونا چاہیے تھا۔

یاد رہے کہ 3 نومبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے وسطی علاقے میں مسلح افراد نے 6 مختلف مقامات پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔

رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا جبکہ ایک فرار ہوگیا جس کی تلاش جاری ہے۔

آسٹرین وزیر داخلہ نے شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔

آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں