’بھارت سکھ یاتریوں کو گوردوارہ دربار صاحب آنے سے روک رہا ہے‘

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2020
کرتار پور راہداری کو امن راہداری بھی کہا جاتا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
کرتار پور راہداری کو امن راہداری بھی کہا جاتا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

کرتار پور راہداری کے افتتاح کو ایک سال مکمل ہونے پر پاکستان کی جانب سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کرتار پور راہداری کو دوبارہ کھولنے سے گریزاں ہے اور سکھ یاتریوں کو ان کے مذہبی مقام پر آنے سے روک رہی ہے۔

یاد رہے کرتار پور راہداری کو عالمی وبا کووڈ 19 کے باعث عارضی طور پر بند کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'جیسے کہ دنیا میں بتدریج مذہبی جگہوں کو دوبارہ سے کھولا جارہا ہے اسی طرح پاکستان نے بھی 29 جون 2020 کو کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ضروری تحفظِ صحت کے پروٹوکولز کے ساتھ کرتار پور راہداری کو یاتریوں کے لیے کھول دیا تھا

دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے راہداری کو دوبارہ کھولنے اور سکھ یاتریوں کو کرتار پور آنے کی اجازت ابھی تک نہیں دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کا افتتاح کردیا

واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے راہداری کا افتتاح گزشتہ سال 9 نومبر کو بابا گرونانک کی 5 سو 50ویں برسی کے موقع پر کیا تھا۔

تاہم کووڈ 19 کی وبا کے باعث اسے رواں سال 16 مارچ کو عارضی طور پر بند کردیا گیا تھا۔

پاکستان کی جانب سے بھارت کو دو طرفہ طور پر 29 جون سے راہداری دوبارہ کھولنے کی پیشکش کی گئی تھی اور بھارتی حکام کو وبا کے دوران یاتریوں کے لیے محفوظ دورے کے حوالے سے پروٹوکولز پر بات چیت کرنے کی بھی دعوت دی گئی تھی۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'کرتار پور راہداری جسے 'امن راہداری' بھی کہا جاتا ہے مذہبی ہم آہنگی اور مذہبی اتحاد کی حقیقی علامت ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اس راہداری کو سکھ براداری کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری نے بھی سراہا ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے جب کرتار پور راہداری کا دورہ کیا تو اسے 'اُمید کی راہداری' اور اسے پاکستان کا ایک تاریخی اقدام کہہ کر سراہا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا کرتارپور آنے والے سکھ یاتریوں کیلئے خصوصی رعایتوں کا اعلان

کرتار پور راہداری قریباً 4 کلومیٹر پر مشتمل ہے جو بھارت سے تعلق رکھنے والی سکھ برادری کو بغیر ویزے کے گوردوارہ دربار صاحب کی رسائی فراہم کرتا ہے یہ وہ مقام ہے جہاں سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے اپنی زندگی گزاری اور 1539 میں انتقال کر گئے تھے۔

2018 میں پاکستان کی جانب سے اس منصوبے کے اعلان کے بعد بھارت نے ہچکچاہٹ کے ساتھ اس میں شمولیت اختیار کی تھی کیونکہ مسترد کرنے پر اسے سکھ برادری کے ردعمل کا خطرہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نوجوت سدھو کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے

اگرچہ راہداری کو سکھ یاتریوں کے دیرینہ مطالبے پر کھولا گیا تھا، تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ یاتری اسے توقعات کے برعکس کم استعمال کر رہے ہیں۔

نومبر 2019 سے مارچ 2020 تک کھلی رہنے کے باوجود راہداری کے ذریعے زیادہ یاتری نہیں آئے بلکہ افتتاح کے روز بھی صرف 700 یاتریوں نے اسے استعمال کیا تھا جبکہ 10 ہزار کے آنے کی توقع تھی۔

پاکستانی حکام کے مطابق سکھ یاتریوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ بھارت کی جانب سے پیدا کی جانے والی رکاوٹیں ہیں۔

راہداری کے افتتاح سے قبل سکھ یاتریوں کو کرتار پور پہنچنے کے لیے لاہور سے بس لینا پڑتی تھی اور 125 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔

قبل ازیں بھارت کی طرف سے لوگ گوردوارا دربار صاحب کو دور سے دیکھ سکتے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک بلند مشاہداتی پلیٹ فارم بھی بنایا ہوا تھا۔


یہ خبر 10 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں