جہانگیر ترین اور شریف خاندان کی شوگر ملز سے متعلق قائم جے آئی ٹی کالعدم قرار

اپ ڈیٹ 12 نومبر 2020
لاہور ہائی کورٹ نے دونوں ملوں کو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے جاری نوٹس کالعدم قرار دے دیے— فائل فوٹو بشکریہ لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ
لاہور ہائی کورٹ نے دونوں ملوں کو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے جاری نوٹس کالعدم قرار دے دیے— فائل فوٹو بشکریہ لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے جہانگیر ترین اور شریف فیملی کی شوگر ملز کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) انکوائری پر فیصلہ سناتے ہوئے دونوں ملز کے خلاف سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے قائم جے آئی ٹی کو کالعدم قرار دے دیا۔

جہانگیر ترین اور شریف فیملی کی شوگر ملز نے ایف آئی اے انکوائری کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ ایف آئی اے کو ایسے معاملات میں انکوائری کا اختیار حاصل نہیں۔

مزید پڑھیں: شوگر انکوائری کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشنز پر حکومت کٹہرے میں

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ایف آئی اے نے حکومت کے کہنے پر انکوائری شروع کر دی ہے اور تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنیوں پر کارپوریٹ فراڈ کا الزام غلط ہے، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے بھی اس معاملے پر طلبی کے نوٹس جاری کیے۔

درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت ایف آئی اے انکوائری، جے آئی ٹی اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے نوٹس کالعدم قرار دے۔

عدالت نے دونوں ملز کو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے جاری نوٹس کالعدم قرار دے دیے۔

عدالت نے قرار دیا کہ ایف آئی اے کو انکوائری کا اختیار حاصل ہے، دیکھنا یہ ہے کہ انکوائری کن قوانین کے تحت کی جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی انکوائری: شوگر ملز ایسوسی ایشن پر کارٹلائزیشن کا الزام

عدالت نے کہا کہ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اپنا کردار قانون کے مطابق ادا کرنے میں ناکام رہا اور ایف آئی اے کے اختیار کے حوالے سے تفصیلی فیصلے میں وضاحت کی جائے گی۔

چینی بحران کی تحقیقات اور کارروائی کا معاملہ

یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: شوگر انکوائری رپورٹ کی کارروائی پر حکم امتناع میں توسیع

بعدازاں حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔

شہزاد اکبر نے کہا تھا انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔

چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں