پروڈیوسرز نے سوچنا چھوڑدیا، جو دِکھ رہا ہے، وہ بِک رہا ہے، سونیا حسین

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2020
اداکارہ کے مطابق مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پروڈیوسرز  نے سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ کیسا مواد دکھانا ہے — فائل فوٹو بشکریہ انسٹا گرام اکاؤنٹ
اداکارہ کے مطابق مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پروڈیوسرز نے سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ کیسا مواد دکھانا ہے — فائل فوٹو بشکریہ انسٹا گرام اکاؤنٹ

پاکستانی اداکارہ سونیا حسین کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کو اچھا مواد یا موضوع ملے گا تب ہی وہ بُرے مواد کو بُرا سمجھیں گے۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی اردو سروس کو دیے گئے انٹرویو میں ڈراموں میں دکھائے جانے والے مواد سے متعلق سونیا حسین کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کو اچھا مواد یا موضوع ملے گا تب ہی وہ بُرے مواد کو بُرا سمجھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پروڈیوسرز نے سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ کیسا مواد دکھانا ہے'۔

اداکارہ نے کہا کہ پروڈیوسرز کے نزدیک جو دِکھ رہا ہے وہ بِک رہا ہے، اگر کچرا بھی بک رہا ہے تو چل رہا ہے۔

سونیا حسین نے کہا کہ ان کے خیال میں خراب مواد دیں گے تو لوگ اسے بھی پسند کریں گے یہ ضروری ہے کہ ابھی سے لوگوں کی تربیت کریں تاکہ ان کی سوچ وسیع ہو اور ان کا ذہن کھلے۔

مزید پڑھیں: سونیا حسین کا 'سراب' ذہنی بیماری کی شکار لڑکی کی کہانی

انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ سال میں ایک ڈراما ایسا ضرور کروں جس کے ذریعے دیکھنے والوں کو کچھ سیکھنے کو ملے اور وہ اس حوالے سے اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانے کا سوچیں۔

سونیا حسین نے کہا کہ ان کے نزدیک بطور آرٹسٹ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان مسائل پر بات کریں جن پر لوگ عام طور پر بات نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے میں جہاں غیر اہم مسائل پر غیر ضروری باتیں ہوتی رہتی ہیں، وہیں اہم چیزوں پر بھی ہونی چاہئیں، جیسا کہ ذہنی امراض پر بات کرنی چاہیے۔

اداکارہ نے کہا کہ ڈپریشن، اینزائٹی اور سٹریس جیسی بیماریاں ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں لیکن جو افراد ان امراض کا شکار ہوتے ہیں انہیں ’پاگل‘ یا ’ایب نارمل‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔

سونیا حسین کا کہنا تھا کہ شیزوفرینیا کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہے جس کے بارے میں لوگوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا اور اگر کسی کے گھر میں یہ بیماری ہوتی ہے تو اس کا علاج کرانے کے بجائے بیماری کو چھپایا جاتا ہے۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

ڈراما سیریل ’سراب‘ میں اداکارہ سونیا حسین ایک ایسی ذہنی مریضہ کا کردار ادا کر رہی ہے جو شیزوفرینیا کا شکار ہے۔

ذہنی مریضہ کا کردار ادا کرنے سے متعلق سونیا حسین کا کہنا تھا کہ جب انہیں ڈرامے کی آفر کی گئی تو انہیں اس لیے اچھا لگا کیونکہ پروڈکشن ہاؤس اور چینل ریٹنگز کے لیے نہیں بلکہ ڈرامے کے ذریعے لوگوں کو آگاہی دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'اسکرپٹ پڑھنے کے بعد میں نے سوچا کہ جب ایک چینل اور پروڈکشن ہاؤس اتنا بڑا رسک لے سکتے ہیں تو بطور اداکارہ میرا بھی فرض بنتا ہے کہ اس کوشش میں اپنا حصہ ڈالوں‘۔

اداکارہ کا مزید کہنا تھا کہ ایک ذہنی مریضہ کا کردار ادا کرنا چیلنج تو تھا لیکن ڈرامے کے ہدایت کار محسن طلعت نے ان کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے وہ یہ کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

سونیا حسین نے ڈرامے کے ڈائریکٹر کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کے مطابق ڈائریکٹر ’کیپٹن آف دی شپ‘ ہوتا ہے، جب وہ اپنے کاندھوں پر ذمہ داری لیتا ہے تو اداکاروں کا کام آسان ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب میں نے اسکرپٹ سائن نہیں کیا تھا تب ہی پروڈکشن ہاؤس اور ہدایت کار نے کہا تھا کہ بے شک آپ ڈراما سائن نہ کریں لیکن ایک بار ری ہیب سینٹر جا کر لوگوں سے ملیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ آپ نے کس طرح کا کردار نبھانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سونیا حسین نے بھی اپنا یوٹیوب چینل کھول لیا

سونیا حسین نے کہا کہ جب وہ ری ہیب سینٹر گئیں تو انہوں نے وہاں جو دیکھا اس کے بعد وہ یہ ڈراما کرنے پر ایک طرح سے مجبور ہوگئیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ری ہیب سینٹر میں، میری ایک خاتون سے کافی دیر بات ہوئی، انہوں نے مجھے اپنی نوکری اور اپنے علاج کے بارے میں بتایا، میں انہیں دیکھ کر حیران ہوئی کہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو بظاہر بیمار نظر نہیں آتے لیکن اصل میں ہوتے ہیں۔

—فائل فوٹو:اسکرین شاٹ
—فائل فوٹو:اسکرین شاٹ

اداکارہ نے کہا کہ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس خاتون کا علاج جاری ہے اور وہ ایک دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور وہ جو بھی کہہ رہی ہیں وہ سب خیالی ہے اور ان کی اپنی طرف سے بنایا ہوا ہے۔

سونیا حسین نے کہا کہ ’یہ ساری چیزیں سراب کی اسکرپٹ کا حصہ تھیں جس کی وجہ سے میں نے یہ کردار ادا کرنے کا سوچا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے'۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جیسے ہم جسمانی بیماری اور تکالیف کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، اسی طرح ذہنی امراض کے لیے بھی ہمیں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور ڈرامے کے ذریعے یہی بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔

سونیا حسین نے کہا کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ ان کے حصے میں ’ایسی ہے تنہائی‘، ’میری گڑیا‘ اور ’عشق زہے نصیب‘ جیسے ڈرامے آئے، جن میں معاشرے کے کسی نہ کسی سنجیدہ موضوع کو اجاگر کیا گیا۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

اداکارہ سونیا حسین کا ایک اور ڈراما ’محبت تجھے الوداع‘ بھی کافی مقبول ہوا ہے۔

یہ ڈراما شروع ہونے سے قبل ہی اس کے ٹیزرز کی بنیاد پر ڈرامے کو بولی وڈ فلم ’جدائی‘ کی نقل قرار دیا گیا تھا اور اس پر بہت تنقید کی گئی تھی لیکن اب اس ڈرامے کو بھی کافی سراہا جارہا ہے۔

اس حوالے سے سونیا حسین نے کہا کہ محبت تجھے الوداع کے آغاز میں لوگوں نے بہت تنقید کی تھی جس سے دکھ ہوا تھا کیونکہ ایک پروجیکٹ بہت مشکل سے مکمل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک پروجیکٹ کے پیچھے کتنے لوگوں کے دن رات کی محنت ہوتی ہے، یہ صرف اس میں کام کرنے والے جانتے ہیں۔

اداکارہ نے کہا کہ جیسے جیسے ڈراما آگے بڑھا لوگوں کو پسند آتا گیا اور اب یہ ڈراما اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے تو لوگ اسے اور بھی پسند کر رہے ہیں۔

سونیا حسین نے کہا کہ انہیں اس ڈرامے کی کہانی پسند آئی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے یہ ڈراما کیا۔

اداکارہ نے ڈرامے کے حوالے سے کہا کہ جب انہوں نے اس ڈرامے کی اسکرپٹ پڑھی تھی تو انہیں بہت مزہ آیا تھا۔

—فوٹو:اسکرین شاٹ
—فوٹو:اسکرین شاٹ

انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنے شوہر سے اتنی محبت کرتی ہے کہ اسے یقین ہے کہ اگر وہ اسے عورتوں کے مجمع میں بھی کھڑا کر دے گی تو وہ وہاں سے بھی ’الفت الفت‘ کہتا ہوا آ جائے گا۔

سونیا حسین نے کہا کہ یہ ڈراما سمجھاتا ہے کہ محبت میں راستہ دینا آپ کی اپنی غلطی ہوتی ہے یا پھر یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس 9 چیزیں ہیں تو اسے دسویں کے حصول میں باقی 9 کو نہیں بھولنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہر کوئی وہی چاہتا ہے جو الفت چاہتی ہے، اس لیے میں اسے ایک نارمل لوو اسٹوری کہوں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں