لیاری گینگ وار کی باقیات کو ‘کرائے کے قاتلوں‘ کے طور پر استعمال کیے جانے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2020
سی ٹی ڈی نے پریس کانفرنس میں اس نئے طریقہ کار کے بارے میں بتایا—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
سی ٹی ڈی نے پریس کانفرنس میں اس نئے طریقہ کار کے بارے میں بتایا—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

کراچی پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ڈی ٹی) کے ڈی آئی جی عمر شاہد حامد نے کہا ہے کہ شہر میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کے لیے غیر ملکی آپریٹرز کی جانب سے لیاری گینگ وار کی باقیات کو استعمال کیا جارہا تھا۔

شہر قائد میں اپنے دفتر میں پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں مفتی امین عرف مفتی عبداللہ کے قتل کی کوشش میں مبینہ طور پر ملوث 3 ملزمان مدثر جاوید، حارث عرف لنگڑا اور ابوسفیان سے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ ’کنٹریکٹ کلنک کا نیا طریقہ‘ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پکڑے گئے ملزمان کا تعلق لیاری گینک وار کے زاہد عرف شوٹر گروپ سے ہے، جو یو اے ای میں رہتا ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کرتا ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ زاہد شوٹر کے علاوہ لیاری گینگ وار کا ایک اور عنصر جو حاجی کے نام سے جانا جاتا تھا وہ گینسٹرز کو فنڈز فراہم کرتا تھا تاکہ وہ ٹارگٹ کلنگز کرے اور فرقہ وارانہ تشدد اور عدم تحفظ پیدا ہو۔

ویڈیو دیکھیں: کراچی میں ٹارگٹ کلرز کا خفیہ کیمروں سے بچنے کا طریقہ سامنے آگیا

ان کا کہنا تھا کہ راجا عمر خطاب کی سربراہی میں سی ڈی ٹی ٹیم نے حارث اور ابو سفیان کو ککڑی گراؤنڈ کھارادر سے اتوار کی رات کو گرفتار کیا جبکہ تیسرے ساتھی مدثر جاوید کو 21 اکتوبر کو مفتی عبداللہ پر قاتلانہ حملے کے بعد عوام کی مدد سے جائے وقوع سے ہی گرفتار کیا گیا تھا۔

سی ٹی ڈی چیف کا ماننا تھا کہ یہ ’پرانے‘ لیاری گینگ وار کے اراکین پر مشتمل ایک مقامی نیٹ ورک تھا جو ’کرائے کے قاتلوں‘ پر کام کرتا تھا اور اس کے ’بین الاقوامی روابط‘ تھے۔

عمر شاہد حامد کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ بائیکا اور فوڈ پانڈہ سے تعلق رکھنے والے کچھ عناصر رقم اور ہتھیاروں کی منتقلی میں بھی ملوث ہیں‘۔

سی ٹی ڈی حکام کا کہنا تھا کہ اگرچہ شہر میں کنٹریکٹ کلنگ کا نیا باب شروع ہوا لیکن اب ہم وفاقی حکومت کی مدد سے اس کی غیر ملکی برانچز پر توجہ مرکوز کریں گے۔

انہوں نے مفتی عبداللہ کو نشانہ بنائے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اس کے 2 پہلو ہوسکتے ہیں، پہلا یہ مفتی عبداللہ ایک ’آسان ہدف‘ تھے دوسرا یہ کہ ان پر قاتلانہ حملہ دیوبند مکتبہ فکر کے ایک معروف عالم دین اور جامعہ فاروقیہ کے سربراہ ڈاکٹر مولانا عادل خان کی ٹارگٹ کلنگ کے 10 روز بعد ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا عادل قاتلانہ حملے میں جاں بحق

سی ٹی ڈی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ دیوبندی علما کی ٹارگٹ کلنگ کی ایک نئی لہر کا خطرے کو جنم دے سکتا ہے جبکہ اس سے فرقہ وارانہ فسادات کا زیادہ امکان ہوسکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی وفاقی اداروں کی مدد سے مولانا عادل قتل کیس پر بھی کام کر رہی ہے اور تفتیش کاروں کو کچھ تکنیکی شواہد ملے ہیں جبکہ کچھ ملزمان کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

اس موقع پر عمر شاہد حامد نے ان خبروں کی بھی تردید کی کہ مفتی عبداللہ پر قاتلانہ حملے مالی تنازع کا شاخصانہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ دوران تفتیش اس قسم کی کوئی چیز سامنے نہیں آئی، پکڑے گئے ملزمان پیشہ ور ٹارگٹ کلرز ہیں اور ان کے گروہ کا سربراہ زاہد شوٹر لیاری میں قتل میں ملوث رہا ہے تاہم بعد ازاں وہ ایران فرار ہوگیا جس کے بعد وہ یو اے ای منتقل ہوگیا۔

افسر کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ زاہد شوٹر کو غیرملکی خفیہ ایجنسی کی جانب سے تحفظ فراہم کیا جارہا تھا۔

اس موقع پر سی ٹی ڈی کے افسر راجا عمر خطاب نے یہ نکتہ اٹھایا کہ گرفتار ملزم مدثر نے تفتیش کاروں کو ’گمراہ‘ کیا کہ اس نے 10 لاکھ روپے کے مالی تنازع کے لیے مفتی عبداللہ کو ہدف بنایا۔

ہٹ لسٹ

دوسری جانب ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے یہ انکشاف کیا کہ پکڑے جانے والے ملزمان کو ٹارگٹ کلنگ کے لیے ان کے غیرملکی آپریٹرز نے ایک ہٹ لسٹ فراہم کی تھی اور یہ ایک بہت بڑی فہرست تھی۔

عمر شاہد کا کہنا تھا کہ یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ان شخصیات کے ناموں کو میڈیا کے ساتھ شیئر کیا جائے لیکن اس فہرست میں نہ صرف مذہبی شخصیات بلکہ دیگر افراد بھی شامل تھے۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم لندن کے کارکنان کا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا اعتراف

راجا عمر خطاب کا کہنا تھا کہ زاہد شوٹر کی ہدایات کی روشنی میں ایسے ممکنہ اہداف کی جاسوسی کی گئی تھی تاہم سی ڈی ٹی نے ان شخصیات کو آگاہ کردیا اور انہیں سیکیورٹی فراہم کی ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران سی ٹی ڈی نے ملزمان کی جانب سے کیے گئے مبینہ جرائم کی تفصیلات بھی بتائی، جس کے مطابق یہ افراد کم از کم 12 مجرمانہ کیسز میں ملوث تھے جس میں شہر میں قتل، زخمی کرنا اور بھتہ خوری کے کیسز شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں