فیس ماسک سے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہوسکتے ہیں؟

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

فیس ماسک کا استعمال کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ہوتا ہے کیونکہ اس سے منہ اور ناک سے سانس لینے، بات کرنے، ہنسنے، چھینک یا کھانسی کے دوران خارج ہونے والے ذرات ہوا میں نہیں پہنچنتے۔

مگر فیس ماسک کے استعمال کے حوالے سے یہ خدشات سامنے آئے ہیں کہ اس سے پھیپھڑوں کا نظام متاثر ہونے سے سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، یا سانس گھٹنے کی شکایت ہوسکتی ہے خاص طور پر جسمانی سرگرمیوں کے دوران۔

مگر اب ایک تحقیق میں ان خدشات کو مسترد کردیا گیا ہے۔

امریکا اور کینیڈا کے محققین کی تحقیق میں کہا گیا کہ فیس ماسک پہننے سے گھٹن کا احساس تو شاید بڑھ جائے، مگر ایسے شواہد نہ ہونے کے برابر ہے کہ اس کے نتیجے میں پھیپھڑوں کے افعال میں نمایاں کی آتی ہے، چاہے سخت ورزش ہی کیوں نہ کی جارہی ہو۔

تحقیق میں شامل کیلیفورنیا یونیورسٹی کی میڈیسین و ریڈیولوجی پروفیسر سوزن ہوپکنز نے بتایا 'فیس ماسک پہننے سے سانس لینے عمل کے دوران گیسوں جیسے خون میں آکسیجن اور ہائیڈروجن آکسائیڈ یا دیگر جسمانی پیمانوں پر اثرات اتنے معمولی ہوتے ہیں کہ انہیں پکڑنا بہت مشکل ہوتا ہے'۔

انہوں نے کہا 'ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جن سے عندیہ ملتا ہو کہ فیس ماسک پہن کر جنس یا عمر یا جسممانی سرگرمیوں سے کوئی فرق پڑتا ہے'۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے اینالز آف دی امریکن تھیورسس سوسائٹی میں شائع ہوئے۔

محققین کا کہنا تھا کہ بس ایک صورت میں مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جب کوئی فرد پھیپھڑوں کے ایسے سنگین امراض کا شکار ہو جو سانس لینے میں مزاحمت کا باعث بنے یا خون میں گیسوں میں معمولی تبدیلیاں آئیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے کیسز میں لوگوں کو ورزش کے دوران فیس ماسک کے استعمال سے بے چینی اور عدم اطمینان محسوس ہوسکتا ہے اور اس حوالے سے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، تاہم کووڈ 19 کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ہونے پر ایسے لوگوں کو بھی فیس ماسک کے استعمال کو ترجیح دینی چاہیے۔

اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے محققین نے اب تک موجود تمام سائنسی رپورٹس کا تجزیہ کیا، جن میں متعدد اقسام کے فیس ماسکس اور نظام تنفس کی ڈیوائسز کے جسمانی سرگرمیوں کے نتیجے میں جسم اور حواس کے ردعمل کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

ان تحقیقی رپورٹس میں متعدد عناصر سانس لینے کے عمل (سانس لینے اور اخراج کے دوران توانائی)، مصنوعی بلڈ گیسوں، مسلز تک دوران خون پر اثرات اور تھاکوٹ، دل کے افعال اور دماغ کی جانب خون کی سپلائی کو دیکھا گیا۔

اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ صھت مند افراد میں فیس ماسک پہننے سے اس طرح کے اثثرات بہت معمولی ہوتے ہیں، چاہے ماسک جس مرضی قسم کا ہو یا کوئی بھی ورزش کررہے ہوں۔

محققین کا کہنا تھا کہ عمر اور جنس بھی اس حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔

سوزن ہوپکنز کا کہنا تھا کہ فیس ماسک پہننا ہوسکتا ہے کہ آرام دہ نہ ہو یا ایسا محسوس ہو جیسے سانس گھٹ رہی ہے، مگر یہ بس احساسات ہوتے ہیں، اس سے صحت مند افراد کے پھپھڑوں کے افعال پر اثرات مرتب نہیں ہوتے، جبکہ کووڈ 19 کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔

اس سے قبل اکتوبر میں بھی ایک تحقیق میں اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔

تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ فیس ماسک کا استعمال لوگوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے زہریلے اثرات کا خطرہ نہیں بڑھاتا چاہے وہ پھیپھڑوں کے امراض کے شکار ہی کیوں نہ ہو۔

اس تحقیق کے دوران کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے فیس ماسک پہننے والے افراد کے خون میں آکسیجن یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں تبدیلیوں کا تجزیہ کیا گیا جبکہ ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا جو پھیپھڑوں کی بیماری سی او پی ڈی کے شکار تھے۔

سی او پی ڈی کے شکار افراد کے لیے سانس لینا مشکل ہوتا ہے جس کے نتیجے میں دم گھٹتا ہے اور وہ ہر وقت تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔

طبی جریدے اینالز آف دی امریکن تھوراسسز سوسائٹی میں شائع اس تحقیق میں فیس ماسک کے استعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیا اور دیکھا گیا کہ ایسے افراد جن کے پھیپھڑے بیماری سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں، ان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

خیال رہے کہ منہ اور ناک کو ڈھانپنے کے حوالے سے اکثر افراد کو لگتا ہے کہ فیس ماسک سے جسم کو آکسیجن کی کمی یا منہ سے خارج سانس کو ہی دوبارہ اندر کھینچنے کا امکان ہوتا ہے۔

مگر ایسا کچھ بی نہیں ہوتا اور اس کے پیچھے سائنسی وجوہات ہیں۔

لوز فٹنگ سرجیکل ماسک اور کپڑے کے ماسکس مسام دار ہوتے ہیں، ہوا ان میں آسانی سے آرپار ہوجاتی ہے مگر نظام تنفس سے خارج ہونے والے ننھے ذرات کے لیے آرپار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فیس ماسک بیماری پھیلانے والے جراثیم کی روک تھام کے لیے مؤثر سمجھے جاتے ہیں جو دوسری صورت میں ہوا میں موجود ہوسکتے ہیں۔

ماسک پہننے سے ہوسکتا ہے کہ ایسا محسوس ہو کہ ہوا کا بہاؤ کم ہوگیا ہے، جس سے شریانوں میں آکسیجن یا جسمانی ٹشوز میں آکسیجن کی کمی ہورہی ہے۔

مگر فیس ماسکس سے ہوا کی آمدورفت پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ یہ پہننے والے کو نفسیاتی احساس ہوتا ہے کہ سانس لینے میں مشکل ہورہی ہے یا کم ہوا جسم کے اندر جارہی ہے۔

ایک اور خدشہ دوران خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بہت زیادہ بڑھنے کا ہوتا ہے جس سے غنودگی، سردرد اور سنگین کیسز میں بے ہوش ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

ایسا سوچا جاتا ہے کہ فیس ماسک پہننے والے خارج کی جانے والی سانس کو ہی دوبارہ کھینچتے ہیں مگر اب تک ایسے شواہد سامنے نہیں آئے جو اس خیال کو درست ثابت کرتے ہوں۔

صحت مند افراد کچھ مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو واپس کھینچ سکتے ہیں مگر یہ ان کے لیے خطرہ نہیں ہوتا، کیوکہ تنفس اور میٹابولک نظام آسانی سے اس مقدار کو خارج کردیتے ہیں۔

بہت زیادہ دیر تک فیس ماسک پہننے سے ہوسکتا ہے کہ سردرد کا سامنا ہو مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔

نیویارک کے لینوکس ہاسپٹل کے ایمرجنسی روم ڈاکٹر رابرٹ گلیٹر کے مطابق صحت مند افراد کے لیے فیس ماسک کے استعمال سے کسی قسم کا خطرہ نہیں بڑھتا، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مرکبات آسانی سسے ماسکس سے خارج ہوجاتے ہیں اور سانس لینا معمول کے مطابق ہوتا ہے۔

صحت مند افراد کے لیے فیس ماسکس کا استعمال محدود وقت کے لیے کرنا کسی بھی قسم کے خطرے کا باعث نہیں ہوتا بلکہ یہ کورونا وائرس اور فلو سمیت دیگر بیماریوں سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں