گلگت بلتستان انتخابات میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2020
گلگت بلتستان الیکشن کیشن کی جانب سے قواعد کا مزید مستعدی سے نفاذ اس طرح کے مسائل سے بچا سکتا تھا—فائل فوٹو: اے پی پی
گلگت بلتستان الیکشن کیشن کی جانب سے قواعد کا مزید مستعدی سے نفاذ اس طرح کے مسائل سے بچا سکتا تھا—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: انتخابات کا جائزہ لینے والے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے تعینات کردہ مبصرین نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں ہر پولنگ اسٹیشن پر اوسطاً 3 غیر قانونی افعال یا بے ضابطگیاں رپورٹ کی ہیں۔

انتخابات کے حوالے سے فافن کی جاری کردہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق جو بے ضابطگیاں دیکھی گئیں ان میں ووٹ کی رازداری کی خلاف ورزی، ووٹرز کی جانب سے کسی دوسرے کے ووٹ پر مُہر لگانا اور متعدد وجوہات کی بنا پر قومی شناختی کارڈ کے حامل ووٹرز کا اندراج نہ ہونا شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فافن کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان الیکشن کیشن کی جانب سے قواعد کا مزید مستعدی سے نفاذ کے ذریعے اس طرح کے مسائل سے بچا سکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:گلگلت بلتستان میں احتجاجی مظاہرے، پاک فوج سے مدد طلب

اس کے ساتھ ہر پولنگ بوتھ پر ووٹرز کی قانونی طور پر مقرر کردہ تعداد سے زیادہ ووٹرز مختص کرنے سے ہجوم اور کچھ پولنگ اسٹیشنز پر بدنظمی دیکھنے میں آئی۔

اسی طرح الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران موجود پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 (گنتی کے نتائج کے اندراج کے لیے) اور فارم 46 (بیلٹ پیپرز سے متعلق) نہیں فراہم کیا جو نتائج کو منظم کرنے کے عمل کی دیانت داری میں اضافہ کرسکتا تھا۔

اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ پولنگ اسٹیشنز پر فارمز کی کم تعداد تھی، نتیجتاً پریزائڈنگ افسر کو پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ ایک سادے کاغذ پر مُہر اور دستخط کے ساتھ دینا پڑا جس کی قانونی حیثیت ابھی تک واضح نہیں ہے۔

فافن کا کہنا تھا ووٹنگ اور گنتی کا عمل زیادہ تر شفاف تھا تاہم فافن کے مبصرین کے علاوہ زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز پر بڑی سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس موجود تھے۔

تاہم 6 حلقوں سے پولنگ ایجنٹس کے ایسے مقامات پر بیٹھنے کی اطلاع ملی جہاں سے وہ واضح طور پر ووٹنگ کے عمل کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔

مزید پڑھیں:گلگت بلتستان انتخابات: پی ٹی آئی 9 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے

مزید سنگین رپورٹس یہ تھیں کہ 3 حلقوں میں اُمیدواروں اور ان کے ایجنٹس کو ریٹرننگ افسران نے ابتدائی نتائج کی تیاری کے دوران آنے سے روکا اور 10 سے زائد حلقوں میں فارم 47 پر عبوری نتائج کے اجرا میں تاخیر ہوئی۔

ان مسائل نے سیاسی نقطہ چینی کا موقع فراہم کیا ورنہ انتخابی عمل پر امن اور منظم رہا جس میں قانون کے مطابق پولنگ کی رات 2 بجے تک عبوری نتائج کو حتمی شکل دینا ضروری ہوتا تھا۔

انتخابات کا آغاز

انتخابی دن عمومی طور پر پُر امن اور منظم رہا اور ووٹنگ کا عمل بلا رکاوٹ صبح 8 بجے سے شامل 5 بجے تک جاری رہا جیسا کے الیکشن کمیشن نے مقرر کیا تھا۔

زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز وقت مقررہ پر کھل گئے تھے تاہم چند مقامات مثلاً استور، غذر اور گھانچے میں جہاں صورتحال اور انتظامیہ رکاوٹوں کے باعث انتخابی عمل شروع ہونے میں تاخیر ہوئی۔

فافن نے دیکھا کہ 14 حلقوں کے 43 پولنگ اسٹیشنز (9.9 فیصد) پر مخالف پارٹیوں کے ووٹرز اور اُمیدواروں کے مابین تلخ کلامی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں حکومت کی تشکیل کیلئے آزاد اُمیدواروں کا اہم کردار

تقریباً نصف حلقوں (47.8 فیصد) میں پولنگ اسٹیشنز کے اندر اُمیدواروں، پولنگ ایجنٹس، سیاسی کارکنان اور پولنگ اسٹاف کے مابین معمولی لڑائی جھگڑے کے واقعات رونما ہوئے۔

پولنگ اسٹیشنز کے داخلی مقامات پر تعینات سیکیورٹی اہلکار نے عام طور پر زیادہ تر (91.5 فیصد) پولنگ اسٹیشنز پر ووٹر کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئے۔

پولنگ کے روز مہم

فافن نے مشاہدہ کیا کہ الیکشن کمیشن عمومی طور پر انتخابی روز پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر مہم اور ووٹ حاصل کرنے کی کوششیں روکنے میں کامیاب رہا اور تمام حلقوں کے نصف سے زائد (59.2 فیصد) پولنگ اسٹیشنز پر مبصرین نے سیاسی جماعتوں یا اُمیدواروں کا کوئی کیمپ نہیں دیکھا۔

رپورٹ کے مطابق 18 حلقوں میں ایک تہائی (30 فیصد) پولنگ اسٹیشن کی ممنوعہ حدود کے اندر کیمپ دیکھے گئے تاہم تمام حلقوں کے اکثر پولنگ اسٹیشنز (83.3 فیصد) میں ان کی حدود میں کسی قسم کا مہم کا مواد نہیں تھا۔

دوسری جانب 10 حلقوں کے 31 پولنگ اسٹیشنز (7.1 فیصد) کی عمارت سے پولنگ اور سیکیورٹی اسٹاف نے اس طرح کا مواد نہیں ہٹایا۔

فافن مبصرین کے مطابق تمام حلقوں کے 3 تہائی (79.4 فیصد) پولنگ اسٹیشنز پر کوئی مہم یا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش نہیں دیکھی گئی۔

تاہم 13 حلقوں کے 49 پولنگ اسٹیشن (11.2 فیصد) میں مسائل دیکھنے میں آئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں