مسلم لیگ (ن) نے اپنی جیبیں بھرنے کیلئے توانائی کے مہنگے معاہدے کیے، عمر ایوب

30 نومبر 2020
ندیم بابر نے کہا کہ سابق حکومت نے فکسڈ پیمنٹ پر ایل این جی ٹرمینل بنائے لیکن اسٹوریج کا انتظام نہ کیا — فوٹو: اے پی پی
ندیم بابر نے کہا کہ سابق حکومت نے فکسڈ پیمنٹ پر ایل این جی ٹرمینل بنائے لیکن اسٹوریج کا انتظام نہ کیا — فوٹو: اے پی پی

وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے توانائی کے مہنگے معاہدے کیے، چند ووٹوں کے لیے بجلی چوری پر قابو پانے کے لیے کچھ نہیں کیا اور بجلی کی ترسیل کے نظام کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کیا۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اے پی پی' کے مطابق اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمر ایوب انے کہا کہ ایک سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے غلط حقائق آج میڈیا کے سامنے بیان کیے ہیں، ہم وہ حقائق سامنے رکھنا چاہتے ہیں جن کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔

انہوں نے کہا کہ سابق حکومت بارودی سرنگیں بچھا کر گئی تاکہ آنے والی حکومت کے لیے دشواریاں پیدا ہوں، انہوں نے اس کے لیے ملک کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے منصوبوں کے بارے میں بڑی باتیں کی جاتی ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کس قیمت پر لگائے گئے، یہ فراڈ کی ایک داستان ہے، نندی پور پاور پراجیکٹ میں 80 ارب روپے کا ٹیکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قوم کو لگایا، پی ایس او کو جو رقم دینی تھی وہ نندی پاور پراجیکٹ کی انتظامیہ نے پی ایس او کو دی ہی نہیں اور دوسری مد میں وہ خرچ کر دیے۔

عمر ایوب نے کہا کہ اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کی گئیں جس میں یہ انکشاف ہوا کہ پی ایس او کے اکاؤنٹ پر سابق حکمرانوں نے ڈاکا مارا، ایف آئی اے کو کیس ہم نے بھیج دیا ہے تاکہ وہ تحقیقات کرے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 70 فیصد توانائی درآمدی ایندھن پر منتقل کر دی گئی تھی، 14 ارب ڈالر تیل و گیس درآمد کرنے پر ہم خرچ کرتے ہیں، سابق حکومت نے تقریباً 4 ہزار میگاواٹ کے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی کٹوتی کر دی اور مہنگے منصوبے لگائے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے ان منصوبوں کو پھر بحال کیا ہے اور ہم قابل تجدید توانائی پالیسی لائے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ملک میں متبادل توانائی کے انحصار کو 20 فیصد تک کرنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں تھر کول موجود ہے لیکن یہاں پر درآمدی کوئلے کا منصوبہ اس علاقہ میں لگایا گیا ہے جہاں پر زرخیز زمین موجود ہے، کئی پلانٹس کی قیمت تو 30 فیصد تک زیادہ تھی، جو معاہدے کیے انہوں نے غلط کئے، اپ فرنٹ ٹیرف دس سال پر کر دیا جس کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی کیونکہ مختلف لوگوں کے مفادات اس میں ملوث تھے، اس لیے اپنے مفادات کی خاطر قوم کا مستقبل گروی رکھ دیا اور اپنے آدھے پاؤ گوشت کے لیے پوری بھینس ذبح کی گئی، یہ وہ غلط معاہدے ہیں جن کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور دوبارہ ان کمپنیوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سابق حکومت کے نمائندے ٹیرف اور گردشی قرضے کی باتیں کرتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے دور میں ٹیرف ڈیڑھ، پونے دو سال تک بڑھایا ہی نہیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ الیکشن کے بعد اگلی حکومت یہ ٹیرف بڑھائے، جہاں پر بجلی چوری ہوتی تھی وہاں انہوں نے کھلی بجلی دی تاکہ انہیں چند ووٹ ملیں لیکن لوگوں نے ان تمام معاملات کو دیکھا اور انہیں بری طرح شکست ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ٹرانسمیشن سسٹم پر بھی کچھ نہیں کیا، تحریک انصاف کی حکومت نے دو سال میں 47 ارب روپے 220 کے وی اور 500 کے وی کے سسٹم پر خرچ کر کے 4 ہزار 275 میگاواٹ مزید بجلی بھی سسٹم میں شامل کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ اصل حقائق ہیں جو ہم پیش کر رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ چور چوری سے چلا جاتا ہے لیکن ہیرا پھیری سے باز نہیں آتا، (ن) لیگ کے رہنماؤں کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہیرا پھیری کر کے لوگوں کے گمراہ کیا جائے اور غلط حقائق پیش کر کے اصل جرائم پر پردہ ڈالا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں عمر ایوب نے کہا کہ گردشی قرضہ کوویڈ 19 سے پہلے 14 سے 15 ارب روپے ماہانہ پر لے آئے تھے لیکن اس کے بعد بلوں میں صارفین کو ریلیف دیا گیا، سابق حکومت نے اپنے آخری سال میں بجلی کا ٹیرف نہیں بڑھایا اور گردشی قرضہ 435 ارب روپے تک بڑھا دیا۔

مزید پڑھیں: اوگرا کی غلطی سے آر ایل این جی صارفین کو 350 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا

سابق حکومت کے غلط فیصلوں سے بہت زیادہ پیسہ ضائع ہوا، ندیم بابر

اس موقع پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ ایک ہزار ارب روپے کی گیس کا گردشی قرضہ بننے کی بات کی گئی ہے لیکن سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ ان کی حکومت پانچ سال میں 300 ارب روپے کا گیس کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی، اس کے علاوہ بجلی کے شعبے نے گیس کمپنیوں کو اگر کوئی رقم ادا کرنی ہے تو وہ اس سے الگ ہے اور اوگرا کے تعین کرنے کے باوجود نوٹیفائی نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایل این جی ٹرمینل کے ساتھ اسٹوریج کا انتظام ضروری ہوتا ہے، سابق حکومت نے فکسڈ پیمنٹ پر ایل این جی ٹرمینل بنائے لیکن اسٹوریج کا انتظام نہ کیا جس کے لیے 5 لاکھ ڈالر سے زائد یومیہ کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے چاہے ایل این جی استعمال کریں یا نہ کریں، اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک شپ آئے گا اور اس کی گیس استعمال ہوگی تو پھر اگلی آسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹوریج کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مسائل موجود ہیں، اب ہم شمال جنوب گیس پائپ لائن کے ساتھ اسٹوریج کا بھی انتظام کر رہے ہیں اور نجی شعبے کو پیش کش کی ہے کہ وہ ایل این جی ٹرمینل لگائیں جس طرح پرانے دو ٹرمینل لگائے گئے تھے اس طرح ہم ٹرمینل نہیں لگا سکتے۔

ندیم بابر نے کہا کہ پچھلے 27 ماہ میں 9 ماہ ایسے تھے جب ہم نے 800 ایم ایم سی ایف ڈی سے کم ایل این جی فروخت کی اور سابق حکومت کے غلط فیصلوں سے بہت زیادہ پیسہ ضائع ہوا، ہم سابق حکومت کے طریقہ کار کے مطابق ٹرمینل نہیں لگا سکتے کیونکہ یہ قوم پر ڈاکا ہے اور ان پر بہت زیادہ مالی بوجھ پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ گرمیوں میں ایل این جی کی قیمت کم تھی تو کیوں نہیں خریدی گئی، اگر گرمیوں میں دسمبر کے آرڈر کر دیتے تو گرمیوں کی قیمت دسمبر میں نہیں مل سکتی تھی، جان بوجھ کر ایک غلط چیز کو اچھالا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں موسم سرما کے دوران گیس کی شدید قلت کا امکان

ان کا کہنا تھا کہ ایک میڈیا ہاؤس نے 22 ارب روپے ضائع کرنے کا حکومت پر الزام عائد کیا ہے، جنوری سے نومبر کے آخر تک ہم نے 13 اسپاٹ کارگو منگوائے اور دسمبر کے لیے 6 کارگو بک کیے ہیں، ہر کارگو کی قیمت 22 سے 25 ملین ڈالر ہوتی ہے، اس طرح یہ 76 سے 77 ارب روپے بنتی ہے، ایسے سوال کا جواب دینا ہی مناسب نہیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ یکم ستمبر 2018 سے لے کر 30 نومبر 2020 تک 35 کارگو منگوائے گئے ہیں اور ان کی اوسط 10.4 فیصد برینٹ ہے، اگر 13.37 فیصد برینٹ سے اس کا موازنہ کریں تو طویل مدتی قیمت کے مقابلے میں 200 ارب روپے کی بچت کی گئی ہے، یہ اصل حقائق اور اصل اعداد و شمار ہیں، اگر کسی کو مارکیٹ کی پرائسنگ کا ادراک نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کہ اسے اس پر بات ہی نہیں کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ہفتے گیس کی طلب و رسد پر بریفنگ دی جائے گی، دسمبر میں ایل این جی کی ترسیل 1200 ایم ایم سی ایف ڈی اور جنوری میں 1400 ایم ایم سی ایف ڈی ہو جائے گی اور جنوری تک نئی پائپ لائن بھی مکمل ہو جائے گی، جبکہ پرانا گردشی قرضہ اگلے چار سے پانچ سال میں 50 سے 60 ارب روپے کی وصولی کے حساب سے ختم کر دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فرنس آئل کے حوالے سے اوگرا کا قانون موجود ہے کہ اس وقت تک درآمد نہیں کیا جاسکتا جب تک مقامی پیداوار ریفائنریز سے اٹھا نہیں لی جاتی۔

ندیم بابر نے کہا کہ صنعتوں کو موسم سرما کے تین ماہ میں گیس فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنے برآمدی آرڈرز پورے کر سکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں