دنیا میں پہلی بار ساؤنڈ بیرئیر ٹوڑنے والے امریکی پائلٹ چک یاگر انتقال کرگئے

اپ ڈیٹ 08 دسمبر 2020
وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر امریکا کے خلائی پروگرام کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی تھی—فوٹو: رائٹرز
وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر امریکا کے خلائی پروگرام کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی تھی—فوٹو: رائٹرز

جنگ عظیم دوم کے امریکی لڑاکا طیارے کے پائلٹ اور آواز کی رفتار سے ساؤنڈ بیرئیر پہلی بار توڑنے والے جنرل (ر) چک یاگر 97 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

70 سے زائد عرصہ قبل آواز کی رکاوٹ کو توڑنے والے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے خلائی پروگرام کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی۔

برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق چک یاگر کی موت کا اعلان ان کی اہلیہ، وکٹوریا نے ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کیا۔

وکٹوریا یاگر نے ٹوئٹ میں لکھا کہ انتہائی دکھ کے ساتھ میں آپ کو بتاتی ہوں کہ جنرل چک یاگر رات 9 بجے سے قبل انتقال کرگئے۔

انہوں نے لکھا کہ ہم نے بہت اچھے سے ایک حیرت انگیز زندگی گزاری، امریکا کے عظیم پائلٹ، طاقت، جرات اور حب الوطنی کی میراث کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

—فوٹو: اے پی
—فوٹو: اے پی

تاریخ کے سب سے مشہور ہوابازوں میں سے ایک چک یاگر نے 1941 میں صرف جہازوں کے انجن پر کام کرنے اور انہیں اڑانے کے لیے امریکی آرمی ایئر کور میں شمولیت اختیار کی تھی۔

چک یاگر کو تیزی سے بڑھتے ہوئے امریکی خلائی پروگرام کے لیے پاس کیا گیا تھا کیونکہ وہ کبھی کالج نہیں گئے تھے لیکن وہ بہت دل شکستہ تھے کہ وہ خلا باز نہیں بن سکے۔

وہ انہیں محض مسافر سمجھتے تھے جو زمین سے دی جانے والی ہدایت پر صحیح سوئچز پھینک رہے ہیں۔

مصنف ٹام وولف ان سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے خلائی پروگرام کے ابتدائی دونوں سے متعلق 1979 میں لکھی جانے والی کتاب 'دی رائٹ اسٹف' میں چک یاگر کو ایک اہم کردار کے طور پر دکھایا۔

ٹام وولف نے کہا تھا کہ چک یاگر کو 'درست چیزوں' سے نوازا گیا تھا جس نے انہیں ایک لیجنڈ ٹیسٹ پائلٹ بنادیا لیکن چک یاگر نے کہا کہ طیاروں سے متعلق ان کے علم اور اوسط سے بہتر وژن کے بجائے یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ ایسا کرسکے جن کے باعث انہوں نے جنگ عظیم دوم میں اپنا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔

انہوں نے پی-51 مستنگ طیارہ، جسے گلیمرس گلینس کا نام دیا تھا، اڑاتے ہوئے 12 جرمن طیارے تباہ کیے تھے جن میں سے 5 کو فضا میں طیاروں کے مابین سخت لڑائی میں مار گرایا تھا۔

—فوٹو:رائٹرز
—فوٹو:رائٹرز

جنگ عظیم دوم کے بعد وہ ٹیسٹ پائلٹ بن گئے تھے اور انہیں خفیہ پروجیکٹ ایکس ایس-ون (XS-1) کے تحت کیلیفورنیا میں میورک ایئرفورس بھیجا گیا تھا۔

پروجیکٹ ایکس ایس-ون کا مقصد میک ون (Mach 1)، آواز کی رفتار تک پہنچنا تھا۔

چک یاگر اس وقت 24 سالہ کیپٹن تھے، انہوں نے ایک ہفتے میں درجنوں طیارے ٹیسٹ کیے تھے جب 14 اکتوبر، 1947 کو انہوں نے برائٹ اورنج بیل ایکس-ون طیارے میں پہلی مرتبہ آواز کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

واضح رہے کہ اس سے چند روز قبل گھڑسواری کے دوران ان کی 2 پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں لیکن انہوں نے گراؤنڈ ہونے کے ڈر سے اپنے سینئرز کو نہیں بتایا تھا۔

ایک بی-29 بمبار ایکس-ون کو کیلیفورنیا کے صحرائے موجاو میں 26 ہزار فٹ کی بلندی پر لے کر گیا اور چھوڑ دیا تھا۔

نہ چک یاگر اور نہ ہی ایوی ایشن انجینئرز یہ جانتے تھے کہ طیارہ یا پائلٹ بغیر کسی وقفے کے اس غیر معمولی رفتار کو سنبھال پائے گا یا نہیں۔

لیکن چک یاگر لیکوئیڈ آکسیجن اور الکحل کی مدد سے ایکس-ون کو 31 فٹ اوپر لے جاتے ہوئے میک 1.06 تک لے گئے تھے۔

انہوں نے 700 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 43 ہزار فٹ کا فاصلہ ایسے طے کیا جیسے وہ کوئی معمول کی پرواز ہو۔

اس کے بعد انہوں نے پرسکون انداز میں طیارے کو ایک خشک جھیل میں اتارا، اس طیارے کا نام اس وقت ان کی اہلیہ کے نام کی وجہ سے گلینس رکھا گیا تھا۔

جس کے 14 منٹ بعد اس نے دوبارہ اڑان بھری تھی، جسے خلا کی کھوج کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس رفتار پر پہنچنے سے قبل انہوں نے اسپیڈومیٹر پر 0.965 میک کی ریڈنگ نوٹ کی تھی۔

چک یاگر نے 1985 میں اپنی سوانح عمری میں لکھا تھا کہ میں حیرت زدہ تھا، تمام تر پریشانی کے بعد اس صوتی رکاوٹ کو توڑ دیا جو ایک پختہ تیزرفتار راستہ بنا۔

—فوٹو: اے پی
—فوٹو: اے پی

چارلس ایل وڈ یاگر ویسٹ ورجینیا میں 13 فروری 1923 کو پیدا ہوئے تھے، وہ 5 بہن بھائی تھے۔

انہیں شروع سے ہی حساب کا مضمون پسند تھا اور وہ ایک منٹ میں 60 الفاظ ٹائپ کرسکتے تھے جو اس بات کا عندیہ ہے آنکھوں-ہاتھ کی یہ ہم آہنگی کاک پٹ میں بہت اچھے سے ان کے کام آئی۔

چک یاگر کو جہازوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور 18 برس کی عمر میں امریکی فوج میں جانے سے قبل انہوں نے کوئی طیارہ نہیں دیکھا تھا۔

ٹیسٹ پائلٹ بننے کے بعد انہوں نے فائٹر اسکواڈرن کمانڈ کیے اور ویتنام جنگ کے دوران 127 مشن سرانجام دیے۔

1960 کی دہائی کے اوائل میں وہ ایئرفورس کے اہلکاروں کے لیے خلابازوں جیسی تربیت کے انچارج تھے لیکن امریکی حکومت کی جانب سے خلا کو ملٹرائز نہ کرنے کے فیصلے کے باعث وہ پروگرام ختم کردیا گیا تھا۔

اس کے باوجود چک یاگر کے تربیت یافتہ 26 افراد ناسا کے خلا باز بنے تھے۔

ان کی پہلی بیوی 1990 میں کینسر سے ہلاک ہوگئی تھیں، ان کے 4 بچے تھے اور 2003 میں انہوں نے وکٹوریا اسکاٹ دی اینگلو سے شادی کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں