بھارتی خطرے کے پیش نظر پاک فوج ہائی الرٹ

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2020
پاک فوج کو ہائی الرٹ کردیا گیا—فائل فوٹو: اے پی
پاک فوج کو ہائی الرٹ کردیا گیا—فائل فوٹو: اے پی

اسلام آباد: بھارت کی جانب سے پاکستان کی حدود میں سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی ایک اور کوشش کے ممکنہ خطرے کے باعث پاک فوج کو ہائی الرٹ کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے ممکنہ خطرے کے باعث پاک فوج کو ہائی الرٹ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ لداخ اور ڈوکلام میں ذلت آمیز شکست کے بعد بھارت خطے کے امن و استحکام کو خطرہ میں ڈالتے ہوئے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور پلوامہ میں ورکنگ باؤنڈری کے پار ایک اور حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے۔

علاوہ ازیں بھارتی فورسز نے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلااشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے 2 جوان شہید جبکہ ایک شہری خاتون زخمی ہوگئیں۔

مزید پڑھیں: بھارتی فوج کی خفت مٹانے کیلئے ایل او سی پر شدید فائرنگ، 5 شہری اور ایک جوان شہید

آئی ایس پی آر کی جانب سے بذریعہ ٹوئٹ بتایا گیا کہ شہید ہونے والوں کی شناخت 38 سالا لانس نائیک طارق اور 31 سالہ سپاہی زاروف کے نام سے ہوئی جبکہ پاکستانی فورسز نے بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی کا بھرپور جواب دیا۔

ادھر ایک پولیس عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ تائی گاؤں میں نسیم فاطمہ زخمی ہوئیں۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ بھارت کسانوں کا جاری احتجاج، اقلیتوں کے ساتھ اس کا برتاؤ، مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم اور بین الاقوامی اداروں اور میڈیا کی جانب سے اس کی پالیسیز پر تنقید سمیت مختلف اندرونی معاملات سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک ’فالس فلیگ آپریشن‘ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’بھارت اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کسی بھی وقت پلوامہ کی طرح کا ڈراما دہرا سکتا ہے اور وہ ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کے ساتھ کوئی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے‘۔

واضح رہے کہ سال 2016 میں بھارت نے ایل او سی پر ایک سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا جسے پاکستان نے مسترد کردیا تھا، اسی طرح گزشتہ برس 26 فروری کو بھارت نے پاکستان کے خلاف اسی طرح کا ایک آپریشن کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام ہوا تھا اور پاک فضائیہ نے بھارت کے 2 طیارے مار گرائے تھے اور ان کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کیا تھا، جسے بعد ازا رہا کردیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ بھارت نے 2014 سے 2019 کے دوران 9 ہزار 215 مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں ایک ہزار 403 اموات ہوئیں، یہی نہیں بلکہ اب تک بھارت 2 ہزار 830 جنگ بندی کی خلاف ورزی کرچکا ہے جس میں صرف شہری اموات 271 تک ہیں۔

پاک فوج کو ہائی الرٹ کرنے کا فیصلہ بھارتی حکومت کی جانب سے اس منصوبے کے تحت جو 2017 میں چین کے ساتھ ڈوکلام بحران کے دوران تصور کیا گیا تھا کے تحت آرمی ہیڈکوارٹرز میں ڈپٹی چیف آف اسٹریٹجی کے نئے عہدے کی بنائے جانے کی منظوری کے بعد کیا گیا۔

اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے امور سے نمٹنے کے لیے ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن وارفیئر کا عہدہ بنایا گیا ہے۔

کیا بھارت ایک فسطائی ریاست بن رہا ہے؟

ادھر اسی سے متعلق پیش رفت میں عالمی ورچوئل سیمینار میں مودی حکومت کے بڑھتے آمرانہ رجحانات اور ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جواب میں اس سوال پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ ’کیا بھارت فسطائی ریاست بن رہا ہے‘۔

این ای ڈبلیو ایم پی ڈیوڈ شوبرج نے افتتاحی بیان میں کہا کہ شہری آزادیوں کا خاتمہ، پولیس کی جارحیت اور عدلیہ میں بڑھتی سیاست کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اب سنجیدگی سے پوچھ رہے ہیں کہ ’کیا بھارت فسطائیت کی طرف بڑھ رہا ہے؟‘ چونکہ بھارت کے دوست ہونے کی حیثیت سے آسٹریلیا اور آسٹریلیائی سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ ایسی آوازوں کی حمایت کریں جو جمہوریت، آزادی اور قانون کی حکمرانی کے ہمارے مشترکہ اقدار کے پابند ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سلامتی کونسل میں بھارت جیسی فسطائی ریاست کیلئے کوئی جگہ نہیں، پاکستان

گرینز امور خارجہ کے ترجمان اور وفاقی سینیٹر جنیت رائس کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق بنیادی ہیں اور اس کا تمام ممالک میں تمام افراد کے لیے تحفظ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’دنیا کے مختلف ممالک کی طرح بدقسمتی سے بھارت میں بھی لوگوں کے انسانی حقوق کا کثرت سے احترام نہیں کیا جارہا، ہمیں خاص طور پر مذہبی اقلیتوں، سیاسی اپوزیشن گرہوں، مقامی لوگوں اور دیگر کمزور برادریوں پر پڑنے والے اثرات پر تشویش ہے‘۔

اس موقع پر آسٹریلیا کی سابق سینیٹر لی رہیا نن کا کہنا تھا کہ بھارت میں جمہوری اور سیاسی معیار میں خطرناک کمی ہوئی ہے، ’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا مودی حکومت بھارت کے لیے فسطائی نظریے کو فروغ دے رہی ہے؟، میں سمجھتا ہوں کہ لوگ یہ سوال کیوں کرتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ نئے قوانین کے تحت غیرقانونی شہری سمجھے گئے لاکھوں افراد کے لیے بھارت میں بڑے حراستی مراکز بنائے گئے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو قتل کیا جارہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے یکطرفہ خاتمے کے بعد علاقے کی پوری آبادی ایک سال سے مواصلات کی پابندیوں کے باعث اپنی رائے کے اظہار کے حق سے محروم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینسر میڈیا، سیاسی رہنماؤں کی مسلسل نظربندی اور سمجھوتہ شدہ عدالتی نظام کے باعث ان اقدامات کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، تاہم یہ فورم بروقت ہے اور عالمی برادری کو اس سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔

کشمیری ورثے کے برطانوی سیاست دان شفق محمد جو 2019 سے 2020 تک یارک شائر اور ہمبر ریجن کے لیے یورپین یونین کی لبرل ڈیموکریٹ رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکی ہیں انہوں نے یورپ میں فسطائیت جس کے نیتجے میں تقریباً 60 لاکھ یہودی مارے گئے اس کا اور بھارت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے ہندوتوا نظریہ کا موازنہ کیا۔

وہی امریکی کانگریس وومن الیکٹ ماری نیومین نے امریکا میں تبدیلی سے متعلق بات کی اور ملک میں انسانی حقوق سے متعلق بھارتی حکومت کے احتساب کا مطالبہ کرنے والے حقوق کے گروہوںکو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

علاوہ ازیں پولس پروجیکٹ کی ایگزیکٹو ڈائیکٹر اور بانی سوچترا وجے یان جو جنگ، تنازع، خارجہ پالیس، سیاست، ادب اور فوٹوگرافی سے متعلق لکھتی ہیں انہوں نے مودی حکومت کی بڑھی فسطائی پالیسز اورملک میں اختلاف رائے کی آواز کو دبانے کے تناظر میں عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ماس میڈیا پر مکمل کنٹرول کی نشاندہی کی۔

تبصرے (0) بند ہیں