اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے نامزد ججز کے انٹرویو کے خلاف دائر درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2020
چیف جسٹس اطہر من اللہ کے لکھے فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمانی کمیٹی کا احترام ہونا چاہیے  — فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس اطہر من اللہ کے لکھے فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمانی کمیٹی کا احترام ہونا چاہیے — فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے ہائی کورٹ کے لیے نامزد 2 ججز کو انٹرویو کے لیے طلب کرنے کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی نے بابر ستار اور طارق محمود جہانگیری کو 21 دسمبر کو انٹرویو کے لیے طلب کیا تھا۔

آئین کی دفعہ 175 کے تحت تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کو عدالتی کمیشن کی نامزدگیوں کی توثیق کی ذمہ داری دی گئی تھی، عدالتی کمیشن اعلیٰ عدلیہ کے لیے افراد کی بحیثیت ججز تعیناتی کی منظوری دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی انٹرویو کرے گی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے لکھے فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمانی کمیٹی کا احترام ہونا چاہیے کیوں کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ عدلیہ اپنی کارروائی پر اعتماد اور اعتماد بحال کیوں نہیں کرنا چاہیے۔

مذکورہ درخواست ایڈووکیٹ اختر احمد بشیر نے دائر کی تھی۔

اپنے آخری اجلاس میں مختلف جماعتوں کے 8 اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی نے ججز کے نامزد دونوں افراد کو 21 دسمبر کو انٹرویو کے لیے طلب کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ فرض کرنا ناانصافی ہے کہ دونوں امیدواروں کو انٹرویو کے لیے طلب کر کے پارلیمانی کمیٹی نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا یا 2011 میں منیر حسین بھٹی کیس میں سپریم کورٹ کے بیان کیے گئے اصول اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کیلئے بابر ستار، طارق محمود کے ناموں کی منظوری

عدالت نے کہا کہ ہائی کورٹ کو اطمینان ہے کہ اس مرحلے پر درخواست گزار کے خدشات غلط مقام پر اور قبل از وقت ہیں۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ہائی کورٹ کو اعتماد ہے کہ پارلیمانی کمیٹی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے طور پر پیشہ ورانہ قابلیت رکھنے والے، سیدھے اور آزاد ذہن رکھنے والے افراد کی تعیناتی یقینی بنانے کے لیے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرے گی۔

درخواست گزار نے 2010 کے قواعد کی شق 3 اور 5 کو چیلنج کیا تھا اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کا اختیار صرف غور کرنا ہے جس کے لیے خود یا حکومت سے حاصل کردہ مواد کا جائزہ لیا جائے۔

درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ بحیثیت جج تعیناتی کے لیے نامزد افراد کو پارلیمانی کمیٹی انٹرویو کے لیے مدعو یا طلب نہیں کرسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمانی کمیٹی میں 2 وکلا کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج بنانے کی مخالفت کا خدشہ

تاہم چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ تعیناتیوں کا معیار یقینی بنانے کے آئین کی دفعہ 175-اے میں امیدواروں کی اسکریننگ کے سلسلے میں ایک واضح طریقہ کار بیان کیا گیا ہے اور جوڈیشل کمیشن پاکستان اور پارلیمانی کمیٹی اعلیٰ عدلیہ کے لیے بہترین ججز کا انتخاب یقینی بنانے کے لیے انتہائی اہم فورم ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں