شیریں مزاری کی مبینہ ہراسانی میں ملوث افراد کو قومی ایوارڈز دینے کی مخالفت

اپ ڈیٹ 25 دسمبر 2020
وفاقی وزیر نے ایوان صدر میں ایک تقریب کے دوارن خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق بات کی — فوٹو: اسکرین شاٹ
وفاقی وزیر نے ایوان صدر میں ایک تقریب کے دوارن خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق بات کی — فوٹو: اسکرین شاٹ

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے مبینہ ہراسانی میں ملوث افراد کو قومی ایوارڈز کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جس پر ہراسانی کا شبہ ہو۔

وفاقی وزیر نے ایوان صدر میں ایک تقریب کے دوران خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق بات کی اور صدر مملکت عارف علوی کو اس حوالے سے اقدامات لینے پر سراہا۔

انہوں نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق ملک کی اسٹریٹیجک وزارت ہے، چاہے وزارت قانون ہو، معاشی طور پر بااختیار بنانا ہو، خواتین کی صحت ہو یا تعلیم یہ سب انسانی حقوق کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

شیریں مزاری نے بتایا کہ کس طرح موجودہ حکومت نے بچوں سے بدسلوکی، خواتین کی وراثت سے متعلق آگاہی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے، خواجہ سراؤں سے متعلق قانون پیش کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: شیریں مزاری کی ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے بیانات کی مذمت

انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں یہ تصور موجود ہے کہ اگر ایک عورت سر نہیں ڈھکتی، اگر وہ ترقی پسند ہے تو وہ قصوروار ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ اگر وہ عورت ہراسانی سے متعلق شکایت کرتی ہے اور وہ شوبز میں ہے تو آپ سمجھیں گے وہ غلط کر رہی ہے۔

وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ دوسری جانب وہ مرد جن کا شوبز سے تعلق ہو بہت طاقتور ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ کی وکلا خاندانوں میں شادیاں ہوئی ہیں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ بحیثیت حکومت، بحیثیت ایک ریاست ہمیں کسی بھی ایسے شخص کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جس پر ہراسانی کا شبہ ہو۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں ایوارڈز کے لیے ان پر (ہراساں کرنے والے مبینہ افراد) غور نہیں کرنا چاہیے جب تک قانون پوری طرح اپنا فیصلہ نہ کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کے کیسز سپریم کورٹ میں ہیں، ہراسانی کے مقدمات بہت زیادہ تاخیر کا شکار ہیں کہ انہیں سنا نہیں جاتا کیونکہ ملزمان طاقتور ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: علی ظفر کے خلاف مہم چلانے کا کیس: تحقیقات میں میشا شفیع مجرم قرار

انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں مثالی طور پر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں خواتین کے ساتھ ہراسانی کے خلاف بہت واضح اور ٹھوس مؤقف اپنانا ہوگا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ میں صرف ہراسانی کی بات نہیں کر رہی، ہمارا مؤقف صنفی تشدد سے متعلق بھی ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے ایک ایپلی کیشن متعارف کروائی ہے اور ہماری ہیلپ لائن بھی ہے۔

اپنے تقریر میں وفاقی وزیر نے شوبز میں ہراسانی اور اس حوالے سے مقدمے کا حوالہ دیا اور ایوارڈ دینے کی حوصلہ شکنی کا بھی کہا۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ اس وقت پاکستانی شوبز انڈسٹری میں گلوکارہ میشا شفیع اور اداکار و گلوکار علی ظفر کا کیس چل رہا ہے، میشا شفیع نے گلوکار پر 2018 میں جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے۔

مزید پڑھیں: حقوقِ نسواں کی تنظیموں کا علی ظفر کو سول ایوارڈ دینے پر اعتراض، فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ

تاہم علی ظفر نے فوری طور پر ان کے الزامات کو مسترد کردیا تھا، بعد ازاں علی ظفر کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم بھی شروع ہوگئی تھی جس کے خلاف انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے رجوع کیا تھا اور ایف آئی اے نے حال ہی میں میشا شفیع سیمت 9 افراد کو قصوروار قرار دیا تھا۔

الزامات لگانے کے بعد میشا شفیع نے علی ظفر کے خلاف محتسب اعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب کو بھی درخواست دی تھی مگر ان کی درخواست مسترد ہوگئی تھی، جس پر علی ظفر نے گلوکارہ کے خلاف لاہور سیشن کورٹ میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے سمیت ایف آئی اے میں شکایت درج کروائی تھی۔

علی ظفر کی جانب سے دائر ہتک عزت کیس کی سماعتیں تاحال سیشن کورٹ میں جاری ہیں۔

علاوہ ازیں رواں برس 14 اگست کو 'یوم آزادی' کے موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 184 ملکی اور غیر ملکی شخصیات کے لیے سول ایوارڈز کا اعلان کیا تھا، جنہیں 23 مارچ کو 'یوم پاکستان' کے موقع پر منعقد کی جانے والی تقریب میں ایوارڈز سے نوازا جائے گا۔

صدر پاکستان نے اس سال جن شخصیات کو سول ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ان میں گلوکار علی ظفر بھی شامل ہیں۔

بعدازاں 19 اگست کو عورت مارچ، عورت آزادی مارچ، ویمن ایکشن فورم اور تحریک نسواں کی جانب سے صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں علی ظفر کو سول ایوارڈ دینے سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس کے بعد اکتوبر میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران لوگوں کی مالی مدد کرنے پر علی ظفر کو حکومت پاکستان کی جانب سے شانِ پاکستان ایوارڈ سے نوازا گیا تھا اور اس پر بھی کچھ تنقید سامنے آئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں