حقوقِ نسواں کی تنظیموں کا علی ظفر کو سول ایوارڈ دینے پر اعتراض، فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ

اس سال جن شخصیات کو سول ایوارڈ کے لیے  نامزد کیا ہے ان میں گلوکار علی ظفر بھی شامل ہیں— فوٹو: ٹوئٹر
اس سال جن شخصیات کو سول ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے ان میں گلوکار علی ظفر بھی شامل ہیں— فوٹو: ٹوئٹر

خواتین کے حقوق سے متعلق آواز اٹھانے والی مختلف تنظیموں نے گلوکار علی ظفر کو سول ایوارڈ دینے پر اعتراض اٹھایا ہے اور اس فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ صدر مملکت نے رواں برس 14 اگست کو ' یوم آزادی 'کے موقع پر 184 ملکی اور غیر ملکی شخصیات کے لیے سول ایوارڈز کا اعلان کیا تھا جنہیں 23 مارچ کو 'یوم پاکستان' کے موقع پر منعقد کی جانے والے تقریب میں ایوارڈز سے نوازا جائے گا۔

رواں برس صدر مملکت کی جانب سے 24 شخصیات کے لیے ستارہ شجاعت، 27 کے لیے ستارہ امتیاز، 23 کے لیے تمغہ شجاعت، 46 کے لیے تمغہ امتیاز، 7 کے لیے نشان امتیاز، 2 کے لیے ہلال امتیاز، ایک کے لیے ہلال قائد اعظم، 2 کے لیے ستارہ پاکستان، 6 کے لیے ستارہ قائد اعظم، ایک کے لیے ستارہ خدمت، ایک کے لیے تمغہ پاکستان، ایک کے لیے تمغہ قائد اعظم جبکہ 44 شخصیات کے لیے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کا اعلان کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سول ایوارڈ کیلئے نامزدگی پر علی ظفر کا خوشی کا اظہار

تمغہ حسن کارکردگی حکومت پاکستان کی طرف سے ایک شہری اعزاز ہے جو پاکستان میں ادب، فنون، کھیل، طب، سائنس اور دیگر شعبوں میں اعلی کاردکرگی دکھانے والوں کو سال میں ایک دفعہ دیا جاتا ہے، صدر پاکستان نے اس سال جن شخصیات کو سول ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے ان میں گلوکار علی ظفر بھی شامل ہیں۔

علی ظفر نے حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کے لیے نامزدگی پر خوشی کا اظہار بھی کیا تھا اور نامزدگی کو بہت بڑا اعزاز قرار دیا تھا۔

جس کے چند روز بعد اداکارہ عفت عمر نے سول ایوارڈز کی نامزدگی سے متعلق ایک تنقیدی ٹوئٹ کی تھی لیکن کسی کا نام نہیں لیا تھا۔

عفت عمر نے لکھا تھا کہ صرف پاکستان میں یہ ممکن ہے کہ حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر ہراسانی میں ملوث شخص کو ایوارڈ دیاجائے۔

انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ کس شخص کے حوالے سے بات کررہی ہیں تاہم لوگوں نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ عفت عمر گلوکار علی ظفر کے بارے میں بات کررہی ہیں۔

جس کے بعد اب عورت مارچ، عورت آزادی مارچ، ویمن ایکشن فورم اور تحریک نسواں کی جانب سے صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں علی ظفر کو سول ایوارڈ دینے سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت نے میشا شفیع کے 2 ارب ہرجانے کے کیس کی سماعت روک دی

اس حوالے سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ ہم پاکستانی معاشرے کو مزید مساوی بنانے کے لیے کام کررہے ہیں کہ جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والی خواتین کو انصاف فراہم کیا جائے اور کام کی جگہ پر تشدد کا خاتمہ اولین ترجیح ہونا چاہیے۔

خط میں کہا گیا کہ ہمارا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت تمام سیاسی اداروں اور مشینری میں برابری اور انصاف کو شامل کرنے کے مینڈیٹ پر کام کررہی ہے اور پاکستانی خواتین، ٹرانس ویمن اور دیگر پسماندہ طبقات کے تحفظ ان کا خصوصی فرض ہے۔

اس میں کہا گیا کہ صدارتی دفتر کی جانب سے علی ظفر کو تمغہ حسن کارکردگی دینے کے فیصلے پر ہمیں شدید تشویش ہے کیونکہ علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد ہیں اور اس حوالے سے مقدمات تاحال جاری ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ ہم اس تمغے کی میراث کو داغدار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔

مزید کہا گیا کہ قصوروار ثابت ہونے تک ہر شخص بے گناہ ہوتا ہے لیکن علی ظفر کے خلاف سپریم کورٹ میں ہراسانی سے متعلق ایک اپیل زیر التوا ہے اور ہتک عزت کا ایک مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ لاہور میں زیر التوا ہے جبکہ اس دوران یہ اعزاز دیے جانے کا وقت انتہائی پریشان کن اور بے حسی ہے۔

مزید پڑھیں: علی ظفر کے خلاف ہراسانی کے الزامات پر ٹوئٹ کرنے والی خاتون صحافی کی معذرت

خط میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ پریشان کن اس لیے ہے کیونکہ اس سے تاثر جاتا ہے کہ ریاست پاکستان نادانستہ طور پر زیر التوا فیصلوں سے قطع نظر جنسی ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے شخص کے ساتھ کھڑی ہے۔

یہ بے حس اس لیے ہے کہ متعدد خواتین کی گواہیوں کے مخالف ہے اور ایک ایسی ثقافت کو فروغ دیتا ہے جہاں جنسی مس کنڈکٹ کو سنجیدہ نہیں لیاجاتا۔

خط میں رواں برس کے انتخاب پر نظرثانی پر زور دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ اسے اس وقت تک کے لیے ملتوی کردیا جائے جب تک نامزد کردہ شخص کے خلاف الزام سے متعلق تمام قانونی معاملات مکمل نہیں ہوجاتے۔

ساتھ ہی وزیراعظم سے ملازمت کی جگہوں کو ہراسانی سے پاک بنانے پر غور کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

اس میں درخواست کی گئی کہ ان معاملات پر فوری طور پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ حکومت پاکستان کے دفاتر کو امتیازی نظاموں، علامات، معیار سے وابستہ نہیں ہونا چاہیے۔

—فوٹو:انسٹاگرام
—فوٹو:انسٹاگرام

خیال رہے کہ علی ظفر کے خلاف بہت سارے افراد اور خاص طور پر خواتین نے اپریل 2018 کے بعد اس وقت سوشل میڈیا پر الزامات لگانا شروع کیے تھے جب کہ میشا شفیع نے ان پر ٹوئٹ کے ذریعے جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: میشا شفیع نے بھی علی ظفر کے خلاف 2 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا

علی ظفر نے میشا شفیع کے الزامات کو مسترد کیا تھا اور بعد ازاں انہوں نے گلوکارہ کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے پر لاہور کے سیشن کورٹ میں ایک ارب روپے کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا جس پر درجنوں سماعتیں ہو چکی ہیں۔

سیشن کورٹ میں علی ظفر اور ان کے 11 گواہوں کے بیانات مکمل ہوچکے ہیں اور اب میشا شفیع کے گواہوں کے بیانات قلم بند ہوں گے، اسی کیس میں میشا شفیع اور ان کی والدہ اداکارہ صبا حمید بھی اپنا بیان ریکارڈ کروا چکی ہیں۔

اسی عدالت میں میشا شفیع نے بھی علی ظفر کے خلاف 2 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے جس پرعدالت نے سماعت روک رکھی ہے اور حکم دیا ہوا ہے کہ پہلے علی ظفر کے ہرجانے کے کیس کا فیصلہ ہوگا۔

واضح رہے کہ علی ظفر پر ہراسانی کے الزامات لگانے والی خواتین میں سے 2 معافی بھی مانگ چکی ہیں جن میں صوفی نامی ٹوئٹر صارف اور خاتون بلاگر و سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ مہوش اعجاز شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں