این ایس جی رکنیت پر بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے مختلف سلوک پر تنقید

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2021
پاکستان نے ایس ایس جی رکنیت پر بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے مختلف سلوک پر تنقید  کا نشانہ بنایا ہے— فوٹو:
پاکستان نے ایس ایس جی رکنیت پر بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے مختلف سلوک پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے— فوٹو:

اسلام آباد: وزارت خارجہ کے ایک سینئر عہدے دار نے رکنیت کے لیے پاکستانی اور ہندوستانی درخواستوں کے ساتھ مختلف سلوک کرنے پر نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) پر تنقید کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ کثیرالجہتی برآمد کنٹرول کا ادارہ سیاست کی نذر ہو گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 'این ایس جی کی سیاست: موجودہ جہتیں' کے عنوان سے ویبینار کی میزبانی کرنے والے اسٹریٹیجک وژن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جمعہ کو جاری بیان میں وزارت خارجہ کے آرمز کنٹرول و اسلحے سے متعلق ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل کامران اختر نے کہا کہ این ایس جی عالمی سطح پر عدم پھیلاؤ کی سیاست کا بہت زیادہ ثبوت دیتی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی این ایس جی میں شمولیت کیلئے نئی کوششیں

انہوں نے این ایس جی پر مفادات کے لحاظ سے جوہری سپلائی کرنے والی ریاستوں کو ترجیح دینے کا الزام عائد کیا۔

جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی حیثیت اور داخلی معیار کے حوالے سے اراکین کے مابین اختلافات کی وجہ سے رکنیت کے لیے ہندوستانی اور پاکستانی درخواستیں 2016 سے این ایس جی میں موجود ہیں۔

کامران اختر کے مطابق سنہ 2016 میں سفیر رافیل گروسی کے تجویز کردہ فارمولے پر عمل پیرا ہوا جائے تو بھی پاکستان بھارت سے بہتر کوالیفائی کرتا ہے کیونکہ اس میں محفوظ اور غیر محفوظ حفاظتی سہولیات کا مرکب نہیں ہے اور وہ قانونی پابندیوں کو قبول کرنے میں زیادہ واضح ہے۔

ہندوستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دلیل ہوتی کہ بھارت کو مرکزی دھارے میں لانے سے عدم پھیلاؤ کو فائدہ پہنچے گا تو میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم میں شامل ہونے کے بعد سے ہندوستان کا طرز عمل اس دلیل کی مخالفت کرتا ہے۔

کامران اختر نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان ممبرشپ کی درخواستوں کو جانچنے کے لیے دو مختلف معیار نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے اب یہی ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: این ایس جی ممالک غیر جانب داری کا مظاہرہ کریں،پاکستان

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ایک سابق عہدیدار ڈاکٹر طارق رؤف نے ، برآمد پر قابو پانے والے ادارے میں بڑے مسائل اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی، انہوں نے کہا کہ یہ ادارے بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات کے مطابق پالیسی نہیں اپناتے اور اندرونی سطح پر عمل درآمد میں غیرمستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ ان میں عالمگیریت اورقانونیت کا بھی فقدان ہے۔

جنیوا میں اسلحے کی تخفیف سے متعلق کانفرنس اور اقوام متحدہ میں اقوام متحدہ کے سابق مستقل مندوب سفیر ضمیر اکرم نے بھی نوٹ کیا کہ این ایس جی کے کام میں اب جغرافیائی سیاست کارفرما ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا استدلال ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ایک مساوی بنیاد کے تحت رکنیت دی جانی چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی ہدایت کے تحت جوہری ٹیکنالوجی کے شہری استعمال میں چین کے ساتھ تعاون جیسے دیگر اختیارات بھی ہیں۔

اسٹریٹیجک وژن انسٹیٹیوٹ کے صدر ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کی جانب سے 2016 سے این ایس جی کے ساتھ ساتھ بیرونی سیاست کی درخواستیں ایک بہت ہی متنازع مسئلہ بن چکی ہیں جو اس سے متعلق تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں