امریکی انتخابات آخری مرحلے میں داخل، ٹرمپ کی بے چینی میں اضافہ

اپ ڈیٹ 05 جنوری 2021
امریکی صدر اور ان کے اتحادیوں نے انتخابی نتائج کالعدم قرار دینے کی درخواست کردی — فائل فوٹو: اے پی
امریکی صدر اور ان کے اتحادیوں نے انتخابی نتائج کالعدم قرار دینے کی درخواست کردی — فائل فوٹو: اے پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے صدر منتخب ہونے والے جو بائیڈن کی فتح کو کالعدم قرار دینے، دھمکی دینے اور ریاستی عہدیداروں سے منگل کو گزارش کی کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو مزید چار سال کی مدت کے لیے وائٹ ہاؤس میں رہنے دیں۔

امریکا پچھلے سال 3 نومبر کو شروع ہونے والی انتخابی جنگ کے آخری مرحلے میں قدم رکھ چکا ہے اور ٹرمپ نے جانے سے انکار کردیا ہے حالانکہ جو بائیڈن نے الیکٹورل کالج کے ساتھ ہی مقبول ووٹ بھی جیت لیے ہیں۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تحقیقات کرکے 'ہراساں' کیا جا رہا ہے، ایوانکا ٹرمپ

پچھلے سال 14 دسمبر کو 538 رکنی الیکٹورل باڈی نے جو بائیڈن کو 2020 کے صدارتی انتخابات میں 232 کے مقابلے میں 306 ووٹ کے ساتھ حتمی فاتح قرار دینے کی تصدیق کی تھی۔

ڈیمو کریٹس کے اُمیدوار جو بائیڈن کو مقبول ووٹوں میں بھی 70 لاکھ کی برتری حاصل ہے۔

لیکن امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ سمجھنے سے انکاری ہیں کہ وہ کیسے ایسا انتخاب ہار گئے جس میں انہیں جو بائیڈن کے علاوہ کسی بھی صدارتی اُمیدوار سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔

منگل کے روز ریاست جارجیا میں بھی دو انتخابات ہورہے ہیں جو فیصلہ کریں گے کہ امریکی سینیٹ کو کون کنٹرول کرتا ہے، اگر ریپبلکن اپنی نشستیں برقرار رکھتے ہیں تو ان کے پاس سینیٹ بھی ہو گا۔

یہ جو بائیڈن کو کوئی بڑا فیصلہ لینے یا کوئی اہم تقرر کرنے سے روک سکتا ہے کیونکہ انہیں دونوں کے لیے سینیٹ کی منظوری کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ ہار نہیں مانیں گے، شکست پر لڑ پڑیں گے، سابق اہلیہ

پہلے سے ایوان نمائندگان پر قابض ڈیموکریٹس سینیٹ میں بھی جیت جاتے ہیں تو بائیڈن وہ کام کرسکتے ہیں جس کا انہوں نے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ ایک آزادانہ جمہوریت کے طور پر امریکا کے تشخص کو بحال کریں گے جس کو ٹرمپ کے چار سالوں کے دوران بہت نقصان پہنچا ہے۔

یہ بات حیران کن نہیں کہ ٹرمپ اور بائیڈن دونوں پیر کے روز جارجیا میں موجود تھے، بائیڈن نے سینیٹ انتخابات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے رائے دہندگان کو بتایا کہ اگر وہ ڈیموکریٹس کو منتخب کرتے ہیں تو وہ اس بھیڑ کو توڑ دیں گے جس نے 2016 میں ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے واشنگٹن اور اس قوم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

ٹرمپ نے بھی سینیٹ انتخابات کے بارے میں بات کرتے ہوئے رائے دہندگان کو ریپبلکنز کو منتخب کرنے پر زور دیا لیکن ان کی توجہ بدھ کے مشترکہ کانگریس اجلاس پر تھی جو انتخابی ووٹوں کی توثیق کے لیے ملاقات کرے گا۔

اگر سیشن جو بائیڈن کے ووٹ کی توثیق کرتا ہے تو اس سے ٹرمپ کی صدارت برقرار رکھنے کی کوششوں کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن جو بائیڈن کو روکنے کے لیے ٹرمپ قانونی چارہ جوئی سے لے کر انتظامی چالوں سمیت متعدد محاذوں پر کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کی بہت خوشی ہے، ایرانی صدر

ٹرمپ اور ان کی مہم پہلے ہی ریاستی اور وفاقی عدالتوں کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ میں بھی 60 کے قریب مقدمات دائر کرچکے ہیں، تاہم ان میں سے زیادہ تر قانونی چارہ جوئی کو مسترد کردیا گیا ہے اور اب قانونی جنگ جیتنے کی امید بہت کم ہے۔

چنانچہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے جارجیا کی طرح ریپبلکن ریاستوں کے عہدیداروں پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے جہاں بائیڈن نے بہت کم مارجن سے فتح حاصل کی۔

ہفتے کے روز ٹرمپ نے جارجیا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کو ٹیلیفون کیا جس کا نتیجہ طے کرنے میں فیصلہ کن کردار ہے، ٹرمپ اور ان کے قانونی معاونین نے سیکریٹری خارجہ بریڈ رافنسپرجر پر زور دیا کہ وہ ان 11 ہزار 500 ووٹوں کو منسوخ کر دیں جس کی بدولت بائیڈن نے مذکورہ اسٹیٹ میں فتح حاصل کی۔

تاہم رافنسپرجر نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں کورونا کیسز، ہلاکتوں پر ٹرمپ کے شبہات، حکام کی تردید

یہ گفتگو تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی جس میں ٹرمپ نے سیکریٹری کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ وہ اور یہ ریاست دونوں ریپبلکن ہیں اور اگر وہ انتخابی نتائج کو تبدیل نہیں کرتے ہیں تو وہ جارجیا میں کبھی بھی دوسرا الیکشن نہیں جیت پائیں گے۔

ٹرمپ نے رافنسپرجر کو یہ بھی بتایا کہ وہ دیگر ریاستوں سے بھی بات کر رہے ہیں جہاں نتائج تبدیل ہو سکتے ہیں اور وہ ان کے مشورے پر عمل پیرا ہونے پر مائل دکھائی دیتے ہیں، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان ریاستوں نے ان کا مشورہ قبول کرلیا اور انہوں نے صدارت برقرار رکھی تو رافنسپرجر مشکل میں پڑجائیں گے۔

انہوں نے بڑے پیمانے پر انتخابی دھوکا دہی کے اپنے دعووں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ انہوں نے کیا کیا اور آپ اس کی اطلاع نہیں دے رہے ہیں، یہ مجرم ہے، یہ ایک مجرمانہ فعل ہے، اور آپ ایسا نہیں ہونے دے سکتے، یہ آپ کے اور آپ کے وکیل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

اس کے باوجود رافنسپرجر پر کوئی اثر نہ پڑا اور انہوں نے پوری گفتگو میں اصرار کیا کہ ان کی ٹیم نے ووٹوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی ہے اور انہیں انتخابی دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

چنانچہ پیر کی شام ٹرمپ نے اپنی توجہ نائب صدر مائیک پینس پر مرکوز کردی ہے جو بدھ کے روز مشترکہ کانگریسی اجلاس کی صدارت کریں گے۔

مزید پڑھیں: 'مجھے 11 ہزار 780 ووٹ درکار ہیں'، ٹرمپ کی حکام پر دباؤ کی مبینہ آڈیو سامنے آگئی

ہفتے کے روز پینس کے چیف آف اسٹاف مارک شارٹ نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ نائب صدر 'ایوان اور سینیٹ کے ممبران کی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہیں، جنہوں نے 6 جنوری کانگریس اور امریکی عوام کے سامنے اعتراضات اٹھانے اور ثبوت پیش کرنے کے لیے آواز بلند کی ہے'۔

اس بیان نے ٹرمپ کو یقین دلایا کہ پینس ان کے ساتھ ہیں لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ مشترکہ اجلاس کے دوران اپنے نائب صدر سے کیا کرانا چاہتے ہیں۔

ریپبلکن اس منصوبے میں تاخیر کے لیے ایوان کے ممبر اور سینیٹر کی حمایت کی بدولت اعتراضات اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں