دنیا بھر میں نئی پرائیویسی پالیسی پر شددید تنقید کے بعد فیس بک کی زیرملکیت واٹس ایپ نے اس کا نفاذ مئی 2021 تک ملتوی کردیا ہے۔

مگر اب بھارت نے واٹس ایپ نے مجوزہ پالیسی واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے جو فیس بک کی زیرملکیت میسجنگ ایپلیکشن کے لیے ایک بڑا درد سر ثابت ہوگا، کیونکہ یہ اس کمپنی کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی ہے۔

بھارت کی وزارت آئی ٹی نے ایک ای میل میں واٹس ایپ کے سربراہ ول کیتھکارٹ کو کہا ہے کہ ایپ کی ڈیٹا شیئرنگ پالیسی میں کی جانے والی اپ ڈیٹ سے صارفین کے انتخاب اور خودمختاری بری طرح متاثر ہوگی، جس کے باعث ہم مجوزہ تبدیلیوں کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

بھارت کی جانب سے واٹس ایپ سے فیس بک اور دیگر کمپنیوں کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ معاہدے کی وضاحت بھی طلب کی گئی اور پوچھا گیا کہ آخر اس نئی پرائیویسی پالیسی سے یورپی یونین کے صارفین کو شامل کیوں نہیں کیا جارہا، جبکہ بھارت میں صارفین کے پاس کوئی انتخاب نہیں بلکہ اسے لازمی تسلیم کرنا ہوگا۔

ای میل میں مزید کہا گیا 'اس طرح کا متضاد رویہ بھارتی صارفین کے مفادات کے خلاف ہے اور اس پر حکومت کو سنگین تحفظات ہیں، بھارتی حکومت کی جانب سے صارفین کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس خط میں درج تحفظات پر واٹس ایپ کی جانب سے جواب دیا جائے'۔

اس پالیسی کے تحت واٹس ایپ صارفین کے ڈیٹا تک فیس بک اور اس کی شراکت دار کمپنیوں کو رسائی حاصل ہوجائے گی، جبکہ پرائیویسی پالیسی کو قبول نہ کرنے پر صارف کا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کردیا جائے گا۔

جنوری کے آغاز میں واٹس ایپ کی نئی پالیسی کے نوٹیفکیشن دنیا بھر میں (ماسوائے یورپ اور امریکا) میں صارفین کو ملنا شروع ہوگئے تھے۔

اس نوٹیفکیشن میں اہم اپ ڈیٹس کے بارے میں بتایا گیا کہ صارفین کے ڈیٹا کے حوالے سے کمپنی کا اختیار بڑھ جائے گا اور کاروباری ادارے فیس بک کی سروسز کو استعمال کرکے واٹس ایپ چیٹس کو اسٹور اور منیج کرسکیں گے۔

واٹس ایپ کی اس نئی پالیسی کے بعد متبادل میسجنگ ایپس بشمول ٹیلیگرام اور سگنل کو ڈاؤن لوڈ کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا، تاہم لوگوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے پالیسی کا نفاذ فروری کی بجائے مئی تک ملتوی کردیا گیا۔

بھارتی حکومت نے کہا کہ کمپنی نے صارفین کے لیے کوئی بامقصد انتخاب باقی نہیں چھوڑا، واٹس ایپ کی جانب سے صارفین کو مجبور کیا گیا، جو ہماری پرائیویسی اور سیکیورٹی کے مفادات کے خلاف ہے۔

تاہم ای میل میں واضح نہیں کیا گیا کہ واٹس ایپ کی جانب سے مطالبہ تسلیم نہ کیے جانے پر کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

مگر بھارتی حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اس کی جانب سے پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل پر نظرثانی کی جارہی ہے، جو صارفین کے ڈیٹا کے حوالے سے ہے۔

بھارت میں اس وقت واٹ ایپ صارفین کی تعداد 45 کروڑ سے زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ واٹس ایپ کی جانب سے 2016 سے فیس بک کے ساتھ صارفین کے ڈیٹا کو شیئر کیا جارہا ہے اور اس وقت کچھ مدت کے لیے صارفین کو موقع دیا گیا تھا کہ وہ اس کو روک سکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں