’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ‘، کورونا ویکسین کیلئے امیر غریب نہیں دیکھا جائے گا، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 02 فروری 2021
وزیراعظم عمران خان نے عوام کے سوالوں کا جواب دیا-فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان نے عوام کے سوالوں کا جواب دیا-فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے عوام سے براہ راست رابطے کے سلسلے میں اعلان کردہ ’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ‘ پروگرام میں عوام کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کورونا ویکسین لگانے کے لیے امیر یا غریب کا فرق نہیں کیا جائے گا بلکہ ایک طریقہ کار کے تحت لگائی جائے گی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا ویکسین کے حوالے سے سب سے پہلے ہماری کوشش ہے کہ صف اول کے طبی عملے کو لگائی جائے اس کے بعد طریقہ کار کے تحت 60 سال سے زائد عمر یا ایسی بیماری کے شکار افراد جن کو کورونا سے مشکل پیدا ہوسکتی ہے ان کی باری آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ فکر نہ کریں اس میں امیر غریب نہیں دیکھا جائے گا بلکہ طریقہ کار کو دیکھا جائے گا کہ کس کو پہلے لگنی چاہیے اور کوشش کریں گے زیادہ تر لوگوں کو اس سال میں دے سکیں۔

ریاست مدینہ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست کی کوششیں پوری ہونے سے متعلق خدشات ظاہر کیے جاتے ہیں لیکن ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور محنت جاری رکھنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے سب سے زیادہ مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کیا ہے اور مجھے زیادہ کامیابیاں بھی ملی ہیں اور جب اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اللہ خود کہتا ہے کہ انسان کو وہ طاقت دی ہے جو فرشتوں میں بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں جس نے بھی بڑا کام کیا اس کو دنیا نے کہا یہ نہیں ہوسکتا، جب پہلا آدمی دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھا تو اس سے پہلے کوئی مر گیا تھا یا ناکام ہوا تھا تو لوگوں نے اس سے بھی کہا کہ تم نہ کرو، یہ دیوانہ ہے کہ کوشش کر رہا ہے اور اسی طرح جب میں نے فیصلہ کیا کہ مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر ایک عظیم قوم بنے گی تو دوسرا راستہ نہیں ہے۔

عمران خان نے کہا کہ مدینے کی ریاست جدید ریاست تھی، پہلی دفعہ اس طرح کے تصورات، جمہوری معاشرہ آیا اور قانون کی بالادستی آئی، جب نبی ﷺ نے کہا کہ میری بیٹی بھی قانون توڑے گی تو اس کو بھی سزا ملے گی، کوئی قانون سے اوپر نہیں تھا پھر ایک انسانیت کا نظام تھا جس کو فلاحی ریاست کہتے ہیں، ریاست نے کمزور طبقے کی ذمہ داری لی تھی، میرٹ تھا، انسانی حقوق، مذہب اور ہر رنگ قانون کے سامنے برابر تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ نبی ﷺ کا آخری خطبہ انسانی حقوق اور آج اقوام متحدہ کا چارٹر ہے وہ انہوں نے 1500 سال پہلے انسانیت کا چارٹر دیا اور یہ جدید تصورات تھے، جو مسلمان ملک ان اصولوں پر گئے وہ آگے بڑھے اور جو مسلمان ملک نہیں بھی ہو اور جب ان اصولوں کو اپناتا ہے تو اوپر چلا جاتا ہے جبکہ جو ان سے پیچھے ہٹتا ہے بدقسمتی سے ہم نے ایسا کیا تو پھر وہی ہوتا ہے جو آج ہمارے حالات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مدینے کی ریاست ایک جدوجہد کا نام ہے، ساری قوم مل کر محنت کرتی ہے، قربانیاں دیتی ہے تو مقصد حاصل ہوتا ہے اور ان شااللہ پاکستانی ایک عظیم قوم بننے جا رہے ہیں۔

'گلگت بلتستان کو سیاحت کا مرکز بنا رہے ہیں'

پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان دنیا کی سیاحت کا مرکز بن سکتا ہے کیونکہ سوئٹزرلینڈ اس علاقے سے آدھا ہے اور سوئٹزرلینڈ سالانہ سیاحت میں 80 ارب ڈالر کماتا ہے حالانکہ پاکستان کی ساری برآمدات 25 ارب ڈالر ہے جبکہ گلگت بلتستان اس کے دوگنا ہے اور یہاں خوب صورتی بہت زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف سیاحت پر بھی توجہ دیں تو سارا علاقہ ایسے خوش حال ہوسکتا ہے جس کا سوچ نہیں سکتے، سی پیک کے بھی راستے میں ہے، کئی ایسی صنعتیں لگا سکتے ہیں اور اب ہم پورا زور لگا رہے ہیں کہ اس علاقے کو سیاحت کا مرکز بنا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے اور پچھلے ہفتے حکم دیا کہ گلگت بلتستان میں گرڈ اسٹیشن بنانے لگے ہیں کیونکہ وہاں بجلی کا مسئلہ ہے پھر پانی سے بجلی کی پیداوار کے ہلانٹ لگا رہے ہیں پھر تیسری چیز سڑکیں ہیں جس کے لیے دو سڑکیں منصوبے میں شامل کی ہیں۔

بلوچستان سے ایک شہری کے سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ یہ ہے کہ علاقہ بہت بڑا ہے اور آبادی بہت کم ہے، درمیان میں فاصلے بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ترقی آسان نہیں ہے کیونکہ زیادہ لوگ ایک جگہ ہوں تو ان کو سہولتیں دینا، جامعات اور کالج بنانا اور صنعتیں لگانا آسان ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو سیاسی سیٹ اپ رہا ہے اس نے بھی نقصان پہنچایا ہے اور وہاں جو سیاسی لوگ آئے ہیں انہوں نے وہاں کا پیسہ بجائے نیچے چلا جاتا لیکن اوپر رہ گیا اور بلوچستان کے لیے اچھا بلدیاتی نظام ضروری ہے تاکہ دور دراز علاقوں میں ترقی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی بلوچستان اور بھی پیچھے رہ گیا ہے، جس کے لیے ایک پیکج دیا ہے جو سب سے بڑا ہوگا، انٹرنیٹ بہت ضروری ہے ابھی تک قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں تھری جی اور فور جی نہیں تھا لیکن اب مختلف شعبوں میں پیکیج دیا گیا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ طاقت ور کا احتساب زیادہ ضروری ہے، آج تک کسی ملک کو پٹواریوں اور تھانیداروں ختم نہیں کیا بلکہ وزیراعظم اور اس کے وزیروں نے چوری کی ہے تب ملک تباہ ہوا ہے۔

'روپے کی قدر گرنے سے مہنگائی ہوتی ہے'

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت مہنگائی کی وجہ سے ہمارے لوگ پر ایک مشکل وقت آیا ہوا ہے، میں ہر ہفتے مہنگائی پر اجلاس کرتا ہوں اور ایک ایک چیز کو دیکھتا ہوں کہ کون سی چیز کی قیمت کیوں چڑھ رہی ہے اور مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ روپے کی قدر گرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں یعنی 2018 اور2019 میں روپیہ 24 اعشاریہ ایک فیصد گرا، ہمارے سے پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت میں 2008 اور 2009 میں روپیہ 25 اعشاریہ 5 فیصد گرا اورمہنگائی 17 فیصد تھی جبکہ ہمارے دور میں مہنگائی کی شرح 7 اعشاریہ 3 فیصد تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ روپیہ گرتا ہے تو سب سے پہلے تیل مہنگا ہوتا ہے جس کا مطلب ٹرانسپورٹ اور بجلی مہنگی ہوجاتی ہے اور روپیہ گرتے ہی جو ڈالر کی چیزیں ہیں وہ مہنگی ہوجاتی ہیں۔

کینیڈا سے فارن فنڈنگ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے اوپر فارن فنڈنگ کا کیس کیا اور انہوں نے اپنے آپ کو بڑے عذاب میں ڈال دیا ہے کیونکہ میں وہ فنڈریزر ہوں جس نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ فنڈ جمع کیے جو شوکت خانم اورپارٹی کے لیے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی واحد پارٹی ہے جس نے سیاسی فنڈریزنگ کی ہے، لوگوں کو بتاتے تھے کہ پارٹی کیا کرنے جارہی ہے اوروہ پیسہ دیتے تھے، جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بڑا ہاتھ ہے اور ہمارے پاس 40 ہزار ڈونرز کے نام، پتہ اور فون نمبر موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے کیونکہ فارن فنڈنگ کا مقصد کوئی بھی غیر ملکی حکومت پیسہ نہ دے اور اس کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ بیرونی حکومتوں نے پیسے دیے یا نہیں دیے۔

'حیران ہوں لوگ سمجھ رہے تھے کہ سب کچھ ایک دم بدل جائے گا'

عمران خان نے کہا کہ میں کئی دفعہ حیران ہوتا ہوں کہ سارے سمجھ رہے تھے کہ آج یہ حکومت آئی ہے تو ایک دم سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، یہ فیری ٹیلز میں ہوسکتا ہے کہ میں جادو کا ایک ڈنڈا ایسے چلاؤں کہ سارا ملک ایک دم ٹھیک ہوجائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کئی چیزیں بگڑی ہیں اور بگڑنے میں 50 سال لگے ہیں، کہیں 30 سال میں بگڑے ہیں اور پچھلے ملک کے دو بڑے ڈاکو نے جو 10 سال گزارے ہیں بلکہ اصل تباہی ان 10 سال میں آئی ہے، پی آئی اے، اسٹیل مل، سارا پاور سیکٹر کیسے تباہ کیا گیا ہے اور اس کو ٹھیک کرنے کے لیے قوم کو صبر کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ مطمئن ہوجائیں کہ ہم سارے اداروں کو باری باری ٹھیک کریں گے، کرکٹ بھی ٹھیک ہوگی کیونکہ علاقائی کرکٹ شروع ہوگئی ہے اب ایک کھلاڑی اور ٹیم کو بہتر ہونے کے لیے وقت دیں۔

سینیٹ انتخابات پر انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کئی لوگ پیسہ دے کر سینیٹر بنتے ہیں اور ہمارے کئی اراکین صوبائی اسمبلی اپنا ووٹ فروخت کرتے ہیں کیونکہ انہیں پیسے ملتے ہیں، جو پیسہ دے کر سینیٹ میں آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پیسہ بنانے آرہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے سمیت اداروں کو سیاسی بھرتیوں اور کرپشن سے تباہ کردیا گیا اور پی آئی اے پر 400 ارب روپے قرضہ ہے اور اس پر سود دینا پڑتا ہے اس بوجھ کی وجہ سے ہم نئے جہاز نہیں خرید سکتے کیونکہ قرضہ چڑھنے کی وجہ سے پیسے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا سے قبل ٹھیک طرف جا رہا تھا اور نقصان بھی کم کر دیا تھا اگر قسطیں نہ دینی پڑیں تو برابر کر رہے تھے لیکن کورونا آگیا تاہم میری کوشش ہے کہ پی آئی اے کو پروفیشنل ادارہ بنایا جائے اور سیاسی مداخلت نہ ہو۔

'جسٹس (ر) عظمت سعید دوسرے این آر او کی بھی تحقیق کریں گے'

براڈ شیٹ پر انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کی حکومت نے ایک کمپنی کو ہائر کیا کہ چوری کرکے جو پیسہ باہر گیا ہے اس کی نشان دہی کی جائے اور کمپنی نے نشان دہی کی اور انہوں نے نواز شریف کے 100 ملین ڈالر کی نشان دہی کی لیکن مشرف نے این آر او دے دیا جبکہ وہ کمپنی کہتی ہے کہ ہم نے معاہدہ پورا کیا اب ہمیں پیسے دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لندن میں عدالت نے جو فیصلہ کیا کہ جو 100 ملین ڈالر کی نشان دہی کی تھی اس کا 20 فیصد اس کمپنی کو دے دیا جو ہماری حکومت کو دینا پڑا، اب جسٹس عظمت سعید کو اس لیے لے رہے ہیں کہ وہ اس میں ماہر ہیں اور وہ نیب کے پراسیکیوٹر رہ چکے ہیں،

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ جو دوسرا این آر او تھا وہ بھی سامنے آئے جہاں انہوں نے سرے محل کا پیسہ دے دیا جو پاکستان کی حکومت کو ملنا تھا اورپھر 60 ملین ڈالر سوئٹزرلینڈ میں پڑا ہوا تھا اس کی بھی تحقیق ہو، اس لیے جسٹس عظمت سعید کو لگایا کیونکہ وہ اس کو سمجھتے ہیں۔

اس سے قبل سرکاری ٹی وی، پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ٹوئٹ کی گئی تھی کہ یہ پروگرام براہ راست نشر ہوگا تاہم بعد میں پی ٹی وی نے ٹوئٹ کیا کہ اس پروگرام کو ریکارڈ کرلیا گیا ہے جسے ساڑھے 7 بجے نشر کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز یہ اعلان کیا گیا تھا کہ عمران خان پیر کی شام 4 بجے عوام سے ٹیلی فون پر بات کریں گے اور اس پروگرام کو ’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس ٹیلی فونک گفتگو میں وزیراعظم عمران خان عوام کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دیں گے، اس سلسلے میں ایک ٹیلی فون نمبر بھی جاری کیا گیا تھا اور بیان میں بتایا گیا تھا کہ لائنیں 4 بجے سے کھول دی جائیں گی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان یکم فروری کو عوام سے ٹیلی فون پر بات کریں گے

بعد ازاں عوام نے وزیراعظم سے رابطے کے لیے آج شام 4 بجے ’0519210809‘ نمبر پر رابطہ کیا۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں یہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ وزیراعظم براہ راست عوامی سوالات کا ٹیلی فون پر جواب دیں گے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان ٹی وی پر براہ راست مختلف ٹیلی تھون بھی کرچکے ہیں جس میں احساس پروگرام کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کی ٹیلی تھون بھی شامل تھی۔

یہ پڑھیں: اجتماعی عبادت سے متعلق ایس او پیز پر عملدرآمد علما کی ذمہ داری ہے، عمران خان

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان سوشل میڈیا پر کافی متحرک بھی رہتے ہیں جبکہ گزشتہ دنوں ڈان کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اندر ایک انوکھا چیلنج درپیش ہے کہ ارکان وزیر اعظم عمران خان سے محض ایک واٹس ایپ پیغام پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

پارٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ وزیر اعظم ذاتی طور پر واٹس ایپ کے ذریعے مختلف ترجمانوں کو ان کی کارکردگی پر رائے دیتے ہیں تاہم یہ ہمیشہ پیٹھ پر تھپکی نہیں ہوتی۔

تبصرے (0) بند ہیں