برطانیہ میں گزشتہ سال دسمبر میں کورونا وائرس کی ایک نئی قسم کی دریافت کا اعلان کیا گیا تھا، جو وہاں ستمبر سے پھیل رہی تھی۔

اب سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ اس نئی قسم میں مزید جینیاتی تبدیلیاں ہورہی ہیں جو پریشان کن ہے۔

جنوبی افریقہ اور برازیل میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی اقسام میں ایک میوٹیشن ای 484 کے کو پہلے ہی دریافت کیا جاچکا ہے جو اب برطانوی قسم کے کچھ نمونوں میں دریافت ہوئی ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا ککہ اس جینیاتی تبدیلی سے کووڈ ویکسین کی افادیت پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، تاہم ویکسینز پھر بھی کام کریں گی۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے ماہرین نے کورونا وائرس کی برطانوی قسم کے چند کیسز میں اس نئی میوٹیشن کو دریافت کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں یہ تبدیلی اس قسم کے تمام کیسز میں ہوئی ہے۔

ویسے وائرس کی اقسام کا خود کو بدلنے کا عمل غیرمتوقع نہیں، تمام وائرس میں میوٹیشنز ہوتی ہیں تاکہ وہ خود کو پھیلانے کے عمل کو برقرار رکھ سکیں۔

لیسٹرشائر یونیورسٹی کے ڈاکٹر جولیان ٹانگ نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ لوگ حفاطٹی اصولوں پر عمل کریں تاکہ کیسز کی شرح میں کمی لاکر وائرس کو مزید بدلنے سے روکا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو نہ صرف وائرس کا پھیلاؤ جاری رہے گا بلکہ وہ حالات کے مطابق خود کو بدلتا بھی رہے گا۔

سائنسدانوں کی جانب سے پہلے ہی کورونا وائرس کی اقسام میں ایسی میوٹیشنز کو دریافت کرنے پر کام کیا جارہا ہے جو موجودہ ویکسین کی افادیت کو متاثر کرسکتی ہوں۔

کچھ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ ای 484 کے میوٹیشن سے وائرس کو مدافعتی نظام کے اینٹی باڈیز حصوں پر حملہ آور ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔

کووڈ ویکسین تیار کرنے والی کمپنی موڈرنا کی ایک تحقیق کے ابتدائی نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اس کی ویکسین اس میوٹیشن والی اقسام کے خلاف مؤثر ہے، تاہم جسم کا مدافعتی ردعمل پرانی اقسام جتنا مضبوط یا طویل نہیں تھا۔

حال ہی میں جانسن اینڈ جانسن اور نووا ویکس کی کورونا ویکسینز کے ٹرائلز کے نتائج میں بھی دریافت کیا گیا تھا کہ وہ نئی اقسام کے خلاف مؤثر ہیں، تاہم ان کی افادیت جنوبی افریقی قسم کے خلاف کم تھی۔

مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسیسن کو ری ڈیزائن اور کچھ تبدیلیوں کے ساتھ چند ہفتوں یا مہینوں میں نئی اقسام کے خلاف زیادہ مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔

ان کے مطابق اچھی بات یہ ہے بظاہر یہ اقسام ایک دوسرے الگ انداز کی بجائے ایک جیسے طریقے سے بدل رہی ہیں۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر روی گپتا نے کہا کہ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس وائرس کی میوٹٰشنز کا ایک مخصوص روٹ ہے اور ہم اس کو ویکسین کے ذریعے بلاک کرنے پر کام کرسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ہاتھوں کو دھونا، سماجی دوری کی مشق اور فیس ماسک کے استعمال سے نئی اقسام سے بھی تحفظ مل سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں