کورونا وائرس جسم خود پر حملہ کرنے والا ہتھیار بنادیتا ہے

31 جنوری 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 کا باعث بننے والا نوول کورونا وائرس جسم کو ہی اپنا ہتھیار بناکر ٹشوز پر حملہ کروا دیتا ہے۔

یہ انکشاف امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کیا گیا جس میں بین الاقوامی ماہرین کو شامل کیا گیا تھا۔

تحقیق کے نتائج سے کووڈ 19 کے متعدد اسرار کی وضاحت بھی ممکن ہوتی ہے، جیسے متعدد مریضوں میں اس کی علامات وائرس کلیئر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی کیوں برقرار رہتی ہیں، جسے لانگ کووڈ کہا جاتا ہے۔

تحقیق ٹیم کے قائد اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر پال یوٹز نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر براہ راست آٹو امیونٹی کا باعث بنتا ہے جو دنگ کردینے والی دریافت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کی ٹیم اب فلو کے مریضوں میں دیکھیں گے کہ انفلوائنزا وائرس کے نتیجے میں بھی ایسا ہوتا ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پیشگوئی ہے کہ یہ صرف نئے کورونا وائرس تک محدود نہیں بلکہ ایسا نظام تنفس کے دیگر وائرسز میں بھی دریافت ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ آن لائن جاری کیے گئے ہیں۔

اس تحقیق میں 4 ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے والے 300 سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کو شامل کیا گیا تھا۔

محققین نے بیماری کے آگے بڑھنے کے ساتھ جسمانی مدافعتی ردعمل کو جاننے کے لیے بلڈ ٹیسٹوں کو استعمال کیا۔

محققین ایسی آٹو اینٹی باڈیز کو تلاش کررہے تھے جو مدافعتی نظام کے ہتھیار تو ہوتی ہیں مگر اکثر جسم کے صحت مند ٹشوز پر حملہ کردیتی ہیں۔

انہوں نے ان آٹو اینٹی باڈیز کا موازنہ ان افراد کی آٹو اینٹی باڈیز سے کیا جو کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔

سابقہ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں آٹو اینٹی باڈیز صحت مند افراد کے مقابلے میں زیادہ عام ہوتی ہیں۔

اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کچھ افراد میں یہ آٹو اینٹی باڈیز بیماری کے آگے بڑھنے کے ساتھ کچھ بدل جاتی ہیں، جس سے عندیہ ملا کہ بیماری ممکنہ طور پر جسم کے کنٹرول سے باہر ہوچکی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایسے مریضوں کے جسم میں خراب کووڈ کا سیٹ اپ تشکیل پاجاتا ہے اور ممکنہ طور پر ایسا آٹو اینٹی باڈیز کی وجہ سے ہوتا ہے۔

20 فیصد میں یہ آٹو اینٹی باڈیز بیماری کے بڑھنے کے ساتھ عام ہوتی ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس کا تعلق وائرل انفیکشن سے ہے کسی پرانی بیماری سے نہیں۔

ان میں کچھ اینٹی باڈیز وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کے اہم ترین حصوں جیسے انٹرفیرون پر حملہ آور ہوتی ہیں۔

انٹرفیرونز ایسے پروٹینز ہوتے ہیں جو متاثرہ خلیات کی بحالی میں مدد فراہم کرتے ہیں اور وائرس کی اپنی نقول بنانے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔

ان پروٹینز کو روک دینا ایک طاقتور ہتھکنڈا ثابت ہوتا ہے اور جان لیوا بیماری کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ اس سے وائرس کو ایک طاقتور سبقت مل جاتی ہے، کیونکہ ہمارا مدافعتی نظام کو کسی چھوٹی پہاڑی کی بجائے ماؤنٹ ایورسٹ جیسی اونچائی کا سامنا ہوتا ہے جو واقعی ذہن گھمادینے والا ہے۔

مدافعتی نظام کی اس تباہی میں مزید اضافہ ہوتا ہے جب یہ اینٹی باڈیز تحقیق میں شامل کچھ افراد کے مسلز اور کنکٹیو ٹشوز کے خلاف متحرک ہوگئیں۔

محققین نے کہا کہ انہوں نے کووڈ 19 کے مریضوں میں ایسی عجیب علامات کو دیکھا جو کسی وائرل انفیکشن کی بجائے آٹو امیون امراض کی محسوس ہوتی تھیں جیسے جلد میں خاراش، جوڑوں میں درد، تھکاوٹ، مسلز میں تکلیف، دماغٰ سوجن، آنکھیں خشک ہونا، خون گاڑھا ہوجانا اور خون کی شریانوں میں ورم وغیرہ۔

انہوں نے کہا کہ ایک چیز جو بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ان مریضوں کو مستقبل میں آٹوامیون امراض کا سامنا تو نہیں ہوگا، اس کے جواب کے لیے ہمیں لانگ کووڈ کے شکار افراد کا جائزہ آئندہ 6 سے 12 ماہ تک لینا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ لانگ کووڈ کے شکار افراد میں آٹو اینٹی باڈیز پر تحقیق بہت ضروری ہے تاکہ ان کا بہترین علاج ہوسکے اور علامات سے چھٹکارا ممکن ہوسکے۔

محققین کے مطابق نتائج سے اشارہ ملتا ہے کہ کووڈ ہمارے ساتھ طویل ترین عرصے تک رہے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں