وزیر اعظم نے اسلام آباد حادثے میں جانی نقصان کا نوٹس لیا ہے، شبلی فراز

اپ ڈیٹ 02 فروری 2021
وزیر اطلاعات شبلی فراز اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ دے رہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اطلاعات شبلی فراز اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ دے رہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ حکومت کی زمین اور اثاثوں کی حفاظت ہمارا آئینی، اخلاقی اور جمہوری فرض بنتا ہے اور سرکاری یا سیاسی سرپرستی میں غیرقانونی قبضے کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

اسلام آباد میں کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ اسلام آباد میں کل گاڑی کے حادثے میں 4 نوجوانوں کی ہلاکت اور جانی نقصان کے واقعے کا وزیر اعظم نے سختی سے نوٹس لیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے کار میں سوار 4 نوجوان جاں بحق

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں قبضہ مافیا کے خلاف جاری مہم پر بھی بات ہوئی، سرکاری زمینوں خصوصاً ریلوے کی زمین پر لوگ بہت آسانی سے قابض ہو جاتے ہیں اور وہاں مختلف سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر ریلوے اعظم سواتی کو تلقین کی گئی ہے کہ اس معاملے کو بہت سختی سے لینا ہے اور حکومت کی زمین اور اثاثوں کی حفاظت ہمارا آئینی، اخلاقی اور جمہوری فرض بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ زمینوں پر قبضے کرتے ہیں تو قانون کی حکمرانی کو دھچکا لگتا ہے اور لوگوں خصوصاً بیرون ملک رہنے والوں میں عدم تحفظ کا احساس جنم لیتا ہے لہٰذا ہم نے ایسے اقدامات کرنے ہیں جس سے لوگ اپنی زمینوں کے بارے میں فکرمند نہ ہوں۔

شبلی فراز نے کہا کہ کوئی بھی غیرقانونی قبضہ جو سرکاری یا سیاسی لوگوں کی سرپرستی میں ہو گا تو اس پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: نیا پاکستان ہاؤسنگ کیلئے آئندہ ہفتے سے قرضوں کی ادائیگی متوقع

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک نیا پاکستان ہاؤسنگ کا تعلق ہے تو یہ نہیں ہے کہ حکومت یہ گھر بنائے گی، حکومت کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے لیے سہولت کار بنے جو گھر خرید نہیں سکتے یا ان میں ان معاشی سکت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کو عملی جامع پہنایا، وزیر اعظم گزشتہ 18 مہینے سے ہفتہ وار میٹنگ کرتے ہیں اور حکومت نے ایک ایسا نظام متعارف کرایا ہے جس میں مکان کے لیے این او سی، نقشے پاس کرنے کا عمل مختصر وقت میں کردیا جائے گا اور 30 دن سے تین مہینے میں جاری کردیے جائیں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے اسٹیٹ بینک کی وساطت سے دیگر بینکوں کو راضی کیا ہے کہ بینک جتنے بھی قرضے دیتے ہیں اس میں سے پانچ فیصد یعنی 378 ارب روپے اس کم لاگت کے گھروں کے منصوبوں کے لیے مختص کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کم لاگت کے گھروں کے لیے شرح سود بھی کم ہے، 5 مرلے کے گھر پر پہلے 5 سال شرح سود 5 فیصد رکھی ہے گئی اور بقیہ 5 سال کے لیے 7 فیصد رکھی گئی ہے جبکہ اسی طرح 10مرلے کے قرض کے لیے بھی قرض کی شرح آسان رکھی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: 279 ہاؤسنگ سوسائٹیز کے امور کی تحقیقات کی ضرورت ہے، ایف آئی اے

ان کا کہنا تھا کہ ان قرضوں کی شرح اس طرح رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص گھر کا کرایہ دیتا ہے کہ تو اس کی قسط اتنی ہی بنے گی جس کے نتیجے میں وہ قسط کی شکل میں قرض بھی واپس کر سکے گا اور آخر میں گھر بھی اس کا ہو جائے گا۔

وزیر اطلاعات نے وزارت ہاؤسنگ کی جانب سے بنائے جا رہے منصوبوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کئی سال سے التوا کا شکار 11 منصوبے 35 ہزار 721 یونٹس بنا رہے ہیں اور اس پر 140 ارب روپے خرچ ہوں گے اور اس کو دوبارہ فعال کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 6 منصوبے چل رہے تھے، وہ 21 ہزار 377 یونٹس بنا رہے ہیں جن پر 210 ارب روپے ان پر خرچ آ رہا ہے جبکہ جون تک 14 منصوبے مکمل ہو جائیں گے جس میں 54 ہزار 61 یونٹس ہیں اور اس پر 272 ارب روپے کا خرچ آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک لاکھ 35 ہزار 636 یونٹس ہیں جن پر 657 ارب روپے کا خرچ ہو گا جبکہ دسمبر 2021 میں 2 لاکھ 29 ہزار یونٹس پر مشتمل منصوبے شروع ہو جائیں گے جن پر 830 ارب روپے خرچ ہوں گے۔

میڈیا بریفنگ کے دوران صحافیوں نے وزیر اعظم کی جانب سے استعفے کی پیشکش کے حوالے سے زیر گردش خبروں پر وزیر اطلاعات کی وضاحت طلب کی لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور صحافیوں سے کہا کہ وہ اپوزیشن سے پوچھیں کہ 31 جنوری گزرنے کے باوجود انہوں نے اب تک استعفے کیوں نہیں دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: استعفوں کے طریقے کار اور وقت پر 4 فروری کو تبادلہ خیال ہوگا، مریم نواز

ایک سوال کے جواب میں شبلی فراز نے کہا کہ میں سینیٹ کا ایک الیکشن لڑا ہوں اور 25ہزار 690 روپے میں سینیٹر منتخب ہوا، کوئی ڈیل نہیں ہوئی لیکن اس الیکشن میں بھی کئی ایسی پارٹی آ گئیں جن کی چھ سات نشستیں تھیں اور 20 ووٹ سرکار تھے تو ووٹ کہاں سے آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب کو پتہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں بولیاں لگتی ہیں جو ابھی شروع ہو گئی ہیں، لوگ خرید و فروخت کرتے ہیں جسے ہماری بین الاقوامی ساکھ بھی خراب ہوتی ہے کہ قانون ساز اپنی نشستیں پیسے سے خرید کر پارلیمان میں آتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں