پی ٹی وی-پارلیمنٹ حملہ کیس: پی ٹی آئی رہنماؤں نے بریت کی درخواست دائر کردی

اپ ڈیٹ 05 فروری 2021
اے ٹی سی اس کیس سے وزیراعظم عمران خان کو پہلے ہی بری کرچکی ہے — فائل فوٹو: اے پی
اے ٹی سی اس کیس سے وزیراعظم عمران خان کو پہلے ہی بری کرچکی ہے — فائل فوٹو: اے پی

اسلام آباد: حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 6 رہنماؤں نے سال 2014 میں پی ٹی وی اور پارلیمنٹ ہاؤس حملہ کیس میں بریت کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست دائر کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواستیں دائر کرنے والوں میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، رکن صوبائی اسمبلی علیم خان اور جہانگیر ترین شامل ہیں۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) اس کیس سے وزیراعظم عمران خان کو پہلے ہی بری کرچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ حملہ کیس: انسداد دہشت گردی عدالت نے وزیراعظم کو بری کردیا

عدالت میں پی ٹی آئی عہدیداران کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کے تحت گزشتہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا۔

ان کی درخواستیں کرمنل کوڈ پروسیجر کی دفعہ 265 (کے) کے تحت دائر کی گئیں جو مقدمے کی کارروائی کے دوران جج کو بری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

درخواست گزاروں کے مطابق اپوزیشن جماعتیں اب حکومت کے خلاف اسی طرح کے احتجاج کررہی ہیں لیکن حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی وی، پارلیمنٹ حملہ کیس: عمران خان کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

درخواست میں کہا گیا کہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے پارلیمان کی جانب سے مارچ کیا اور اس کے بعد حکومت نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔

اے ٹی سی جج راجا جواد عباس نے درخواستوں پر ریاست کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 18 مارچ کو جواب طلب کرلیا۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے سال 2014 میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا جو کئی ماہ جاری رہنے کے بعد آرمی پبلک اسکول حملے کے تناظر میں ختم کردیا گیا تھا۔

دھرنے کے دوران مشتعل افراد نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کردیا تھا، جس کی وجہ سے پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات کچھ دیر کے لیے معطل ہوگئیں تھیں۔

حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً 70 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور سرکاری املاک پر حملوں اور کار سرکار میں مداخلت کے الزام پر انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایس ایس پی تشدد کیس: عمران خان کو بری کردیا

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے سیمت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔

پولیس نے دھرنے کے دوران تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور رہنماؤں ڈاکٹر عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اعجاز چوہدری اور دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ لاگو کیا تھا۔

اس معاملے پر استغاثہ کے پرانے مؤقف کے مطابق 3 افراد ہلاک اور 26 دیگر زخمی ہوئے جبکہ 60 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ استغاثہ نے اپنے کیس کو قائم کرنے کے لیے 65 تصاویر، لاٹھی، کٹر اور دیگر اشیا کو ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا تھا۔

استغاثہ نے کہا تھا کہ احتجاج پُرامن نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی دھرنا کیس: تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت حاضری سے مستثنیٰ قرار

11 ستمبر 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دھرنے کے دوران بننے والے 3 مقدمات میں وزیراعظم عمران خان کی مستقل حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی تھی۔

بعدازاں جج نے پی ٹی وی حملہ کیس سے عمران خان کی بریت کا کیس الگ کردیا تھا اور پی ٹی وی حملہ کیس کی ایک سماعت میں وزیراعظم کے وکیل کو 12 نومبر تک دلائل سمیٹنے کی ہدایت کی تھی۔

جس کے بعد اے ٹی سی نے پارلیمنٹ حملہ کیس سے وزیراعظم عمران خان کو بری کردیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے طلب کرلیا تھا۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان اس مقدمے میں اشتہاری رہ چکے ہیں اور بریت کے فیصلے سے قبل ضمانت پر تھے جبکہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری مقدمے میں بدستور اشتہاری ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں