مقبوضہ کشمیر: بیٹے کی لاش کی حوالگی کے مطالبے پر دہشت گردی کا مقدمہ

اپ ڈیٹ 09 فروری 2021
16سالہ اطہر مشتاق کے والد مشتاق وانی اپنے بیٹے کی موت کے غم میں نڈھال ہیں— فوٹو: اے پی
16سالہ اطہر مشتاق کے والد مشتاق وانی اپنے بیٹے کی موت کے غم میں نڈھال ہیں— فوٹو: اے پی

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں قتل ہوئے نوجوان بیٹے کی لاش کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے شہری کے خلاف غیرقانونی جلوسوں کے انعقاد اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مشتاق احمد وانی اور ان کے دو بھائیوں سمیت چھ افراد پر غیرقانونی سرگرمیوں کے خلاف گزشتہ ہفتے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوجی نے انعام کیلئے 3 افراد کو قتل کیا، پولیس رپورٹ

قابض بھارتی افواج نے مشتاق کے 16سالہ نوجوان اطہر مشتاق اور دیگر دو نوجوانوں کو 30دسمبر کو گولیاں مار کر قتل کردیا تھا جہاں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ سری نگر کے نواح میں ہونے والے پولیس مقابلے میں ان نوجوانوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا تھا اور انہیں کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف خطرناک دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دیا۔

حکام نے ان نوجوانوں کو ان کے آبائی گاؤں سے 115 کلومیٹر دور قبرستان میں دفنا دیا جہاں اب تک اپریل 2020 کو شروع کی گئی پالیسی کے تحت بھارتی حکام 150 سے زائد نوجوانوں کو 'کشمیری شدت پسند' قرار دے کر بے نام قبروں میں دفن کر چکے ہیں اور ان نوجوانوں کے اہل خانہ کو تدفین میں شرکت کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

ان نوجوانوں کے اہل خانہ مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں اور اپنے بچوں کی لاشیں حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں کیونکہ وہ زور دیتے رہے ہیں کہ یہ شدت پسند نہیں بلکہ انہیں جعلی پولیس مقابلوں میں مارا گیا۔

قتل اور تدفین پر کشمیر کے عوام سراپا احتجاج ہیں اور سوشل میڈیا پر مشتاق احمد کی ویڈیوز زیر گردش ہیں جس میں وہ قابض بھارتی فورسز سے ان کے بیٹے کی لاش حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 550 دن کے بعد 'فور جی' سروسز بحال

گزشتہ ماہ مشتاق احمد نے اپنے گاؤں میں بیٹے کی قبر کھود کر حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی لاش کو نکال کر یہاں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا جائے لیکن وہ قبر اب بھی خالی ہے۔

دو پولیس اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملزم پر غیرقانونی طور پر مظاہروں کے انعقاد، ملک دشمن عناصر کی معاونت اور ریاست کے خلاف ناامیدی کے پرچار کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مقتول نوجوان کے والد مشتاق کو اب تک حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت نے 2019 میں انسداد دہشت گردی قانون میں ترمیم کی تھی جس کے تحت حکومت کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ کسی بھی فرد کو دہشت گرد قرار دے سکتی ہے، پولیس ثبوت پیش کیے بغیر ملزم کو 6ماہ تک حراست میں رکھ سکتی ہے اور ملزم کو اس کے تیجے میں 7سال تک قید میں رکھا جا سکتا ہے، انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کو سفاکانہ اور ظالمانہ قرار دیا تھا۔

مشتاق احمد نے پیر کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس مجھے خاموش کرنا چاہتی ہے لیکن میں خاموش نہیں رہوں گا اور انصاف اور اپنے بیٹے کی لاش کے حصول کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا۔

مزید پڑھیں: بھارت مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے، امریکا

کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے بھارت قابض افواج کے ذریعے تحریک کو دبانے کی دہائیوں سے کوشش کررہا ہے اور 1989 میں بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد میں ہزاروں نوجوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔

اگست 2019 میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کردیا تھا اور کرفیو نافذ کرتے ہوئے مواصلات کے نظام پر پابندی عائد کردی تھی اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نئے قوانین متعارف کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں