مقبوضہ کشمیر میں 550 دن کے بعد 'فور جی' سروسز بحال

اپ ڈیٹ 07 فروری 2021
مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019 کو انٹرنیٹ سروسز بند کردی گئی تھیں— فائل فوٹو: اے پی
مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019 کو انٹرنیٹ سروسز بند کردی گئی تھیں— فائل فوٹو: اے پی

مقبوضہ کشمیر میں 18 ماہ کے طویل انتظار کے بعد بھارتی حکام نے فور جی انٹرنیٹ سروس بحال کردی ہے۔

5 اگست 2019 کو بھارت نے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کردیا تھا اور اس کے بعد فور جی انٹرنیٹ سروسز وہاں پر مستقل بند تھیں جسے آج 550 دن کے طویل وقفے کے بعد کھول دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 72 روز بعد موبائل پوسٹ پیڈ سروس بحال، انٹرنیٹ تاحال بند

امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق سیکریٹری خارجہ شلین کبرا نے یہ حکمنامہ پانچ فروری کو جاری کیا جہاں اس دن دنیا بھر کے عوام کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

انٹرنیٹ سروس کھولنے کے ساتھ ساتھ پولیس حکام کو کہا گیا ہے کہ وہ اس پابندی کے ہٹنے کے بعد سرگرمیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیتے رہیں۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا خصصی درجہ ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شہریوں کو وہاں زمین کی ملکیت اپنے نام اور نوکریوں کے حقوق بھی دے دیے تھے جس پر کشمیری عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج نے سیکیورٹی آپریشنز کے نام پر جعلی پولیس مقابلے شروع کردیے تھے جبکہ مواصلات پر پابندی کے نتیجے میں ہزاروں افراد بیروزگار، نظام صحت تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام بھی ناکارہ ہو گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ جموں و کشمیر میں سوشل میڈیا کے بغیر انٹرنیٹ کی محدود بحالی کا امکان

عوام کے بھرپور احتجاج اور بھارت سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کے احتجاج کے پیش نظر بھارتی حکام نے ان پابندیوں میں تھوڑی نرمی کی تھی اور انٹرنی سورسز جزوی طور پر بحال کردی تھی۔

گزشتہ سال جنوری میں حکام نے انتہائی سست رفتار انٹرنیٹ سروس فراہم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں حکومت کی جانب سے منظور کردہ سوا کروڑ ویب سائٹس تک رسائی دی تھی۔

اس کے دو ماہ بعد سوشل میڈیا پر عائد پابندیاں بھی ختم کردی گئی تھیں لیکن تیز رفتار انٹرنیٹ سروس بحال نہیں کی گئی تھی البتہ 5اگست کے غیرقانونی اقدام کے ایک سال بعد گزشتہ سال اگست میں 20 میں سے دو اضلاع میں 4جی سروسز بحال کردی گئی تھیں۔

حکام نے اس پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ انٹرنیٹ پر پابندی کا مقصد بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی حوصلہ شکنی اور حریت پسندوں کی کارروائیوں پر قابو پانا ہے جو کئی دہائیوں سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔

بھارتی حکام کا ماننا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا بھارت سے پرامن انضمام یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ علاقے میں معاشی ترقی کے لیے اس طرح کے سیکیورٹی اقدامات بہت ضروری ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ تک 'محدود' رسائی دے دی

تاہم کشمیری اس کارروائی کو مسلم اکثریتی علاقے کی جغرافیائی ساکھ بدلنے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے مقبول رہنما اور 2019 میں طویل عرصے تک جیل میں رہنے والے عمر عبداللہ نے وادی میں فور جی انٹرنیٹ سروسز کی بحالی کا خیرمقدم کرتے ہوئے ٹوئٹ کی کہ 'دیر آید، درست آید'۔

دیگر افراد نے بھی اس پیشرفت کو مثبت قرار دیتے ہوئے انٹرنیٹ کو بنیادی حق قرار دیا ہے۔

کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھاسن نے کہا کہ کچھ افراد فور جی کی بحالی پر حکومتی مشینری کا شکریہ ادا کررہے ہیں لیکن یاد رہے کہ یہ ہمیں خیرات نہیں دے رہے بلکہ ہمیں ایک عرصے تک اس سے محروم رکھنے پر ان سے ہرجانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ بھارت میں اکثر حکومت مخالف احتجاج کو ناکام بنانے کے حربے کے طور پر مخصوص علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز کو بند کردیا جاتا ہے اور ایک ڈیجیٹل پرائیویسی اور ریسرچ گروپ کے مطابق بھارت 2020 میں انٹرنیٹ کی بندش میں سرفہرست رہا۔

مذکورہ گروپ نے لکھا کہ انٹرنیٹ کی بندش سے 2020 میں دنیا بھر میں 4.01ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور اس سے بھارت سب سے زیادہ متاثر ہوا جسے 2.8ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: ہسپتالوں میں انٹرنیٹ کی بحالی کے مطالبے پر ڈاکٹر گرفتار

بھارت میں زیادہ تر کشمیر میں انٹرنیٹ سروس کی بندش کو بطور ہتھکنڈا استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پرست حکومت کے دوران بھارت کے متعدد علاقوں میں احتجاج کو دبانے اور اسے ناکام بنانے کے لیے انٹرنیٹ کو لاتعداد بار بند کیا گیا۔

حال ہی میں حکومت کے متنازع زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج کسانوں کے مظاہروں کے دوران بھی دارالحکومت ئی دہلی اور اس کے مضافات میں انٹرنیٹ سروسز کو بند کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں