مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوجی نے انعام کیلئے 3 افراد کو قتل کیا، پولیس رپورٹ

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2021
بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے پر سرکاری فورسز کو نقد انعام دیتی ہے—فوٹو: اے پی
بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے پر سرکاری فورسز کو نقد انعام دیتی ہے—فوٹو: اے پی

مقبوضہ جموں و کشمیر میں فوجی افسر کے ہاتھوں 3 نہتے شہریوں کے قتل کی تحقیقات کرنے والے پولیس عہدیداروں نے کہا کہ افسر نے نقد انعام حاصل کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پولیس کی چارج شیٹ میں شامل ہے کہ بھارتی فوج کے کیپٹن بھوپندرا سنگھ کو جولائی 2020 میں تین مزدوروں کے قتل اور سازش کی فرد جرم دسمبر میں عائد کی گئی تھی اور انہوں نے ایسا 27 ہزار 200 ڈالر انعام کے حصول کی غرض سے کیا تھا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کے کپتان نے 3 مزدوروں کو جعلی مقابلے میں قتل کیا، پولیس

بھوپندر سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تینوں کشمیری مسلح تھے لیکن پولیس تفتیش میں بتایا گیا کہ انہوں نے مبینہ طور پر مذکورہ افراد کو دہشت گرد ظاہر کرنے کے لیے جعلی اسلحہ ظاہر کیا۔

واضح رہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے مبینہ دہشت گردوں کو مارنے پر سرکاری فورسز کو 27 ہزار ڈالر ادا کیے جاتے ہیں جہاں بھارتی حکومت کے خلاف شرپسندی کے الزام میں 1989 سے اب تک ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

سرکاری فورسز کو نقد انعام فوج کے بجائے حکومت کی جانب سے دیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن خبردار کرتے ہیں کہ مالی انعام معصوم لوگوں کے ماورائے عدالت قتل کا سبب بنے گا۔

معروف کارکن پرویز ایمروز کا کہنا تھا کہ 'نقد انعام کے ساتھ استثنٰی سے فائرنگ کے واقعات جاری رہنے کا خدشہ ہے جس میں بے گناہ شہریوں کو مار دیا جاتا ہے'۔

مقبوضہ جموں و کشمیر 1990 سے ملٹری ایمرجنری قانون کے زیر اثر ہے جس کے تحت فوجیوں کو مشتبہ علیحدگی پسندوں کو گولی مارنے کے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں انکاؤنٹر میں قتل کیے گئے 3 نوجوان مزدور تھے، اہلخانہ

اس قانون کے تحت فوجیوں کو ان جرائم پر سول عدالتوں میں کارروائی سے بھی استثنیٰ حاصل ہے تاہم حکومت کی جانب سے اجازت دیے گئے مخصوص کیسز کی سماعت ہوسکتی ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران اس طرح کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ سیکیورٹی فورسز کے اقدامات پر تفتیش کے بعد پولیس کی جانب سے درجنوں درخواستیں دی گئیں۔

بھارت فوج کے تین افسران کو 2010 میں مجرم قرار دیتے ہوئے کورٹ مارشل کیا گیا تھا جنہوں نے تین مزدوروں کو نشانہ بنایا تھا اور انہیں نام نہاز لائن آف کنٹرول کے قریب موجود پاکستان درانداز بنا کر پیش کیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد کئی مہینوں تک احتجاج جاری رہا تھا اور اس دوران سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

اس سے قبل 2000 میں بھارتی فوج نے 5 'دہشت گردوں' کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو 35 سکھوں کے قتل عام کے ذمہ دار تھے لیکن تحقیقات میں سامنے آیا تھا کہ پانچوں افراد مقامی تھے اور انہیں جعلی مقابلے میں مارا گیا تھا۔


یہ خبر 12 جنوری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں