جنوبی افریقہ: ذکر خدا سے ’گینگ وار‘ کے گڑھ کو پرامن بنانے والے مسلمان

اپ ڈیٹ 01 مارچ 2021
شیخ حسن پانڈے ہفتہ وار مجالس کے اہم خطیب ہیں—فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی
شیخ حسن پانڈے ہفتہ وار مجالس کے اہم خطیب ہیں—فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی

عام طور پر دنیا بھر میں مذہبی گروہوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو شدت پسندی سے جوڑا جاتا ہے۔

تاہم جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن کے ’گینگ وار‘ کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں مسلمان مذہبی علما نے عبادات کو فروغ دے کر امن قائم کرکے سب کی رائے تبدیل کردی۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن کے ’گینگ وار‘ کے قصبے کے طور پر شہرت رکھنے والے علاقے ’منن برگ‘ (Manenberg) میں مسلمانوں نے ذکر خدا کی مجالس منعقد کرکے امن کو فروغ دیا۔

مسلمانوں کی مذہبی مجالس سے علاقے میں مذہبی ہم آہنگی بھی پیدا ہوگئی—فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی
مسلمانوں کی مذہبی مجالس سے علاقے میں مذہبی ہم آہنگی بھی پیدا ہوگئی—فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی

’منن برگ‘ (Manenberg) کا علاقہ کئی دہائیوں تک گینگ وار، نسلی تعصب، سیاہ فام افراد کے استحصال اور تشدد کے علاقے کے طور پر مشہور رہا، یہیں سے ہی افریقہ میں سیاہ فام بالادستی کی مہم شروع ہوئی تھی۔

اگرچہ ’منن برگ‘ (Manenberg) میں رہنے والے زیادہ تر افراد مسیحی ہیں تاہم وہاں پر مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے پیروکار بھی رہائش پذیر ہیں۔

یہ علاقہ کئی سال تک تشدد اور دہشت گردی کا گڑہ رہنے کی وجہ سے جنوبی افریقہ کے خطرناک علاقوں میں شمار کیا جاتا تھا مگر وہاں پر مسلمان علما نے ہفتہ وار عبادات کا اہتمام کرکے علاقے سے تشدد کو تقریبا ختم کردیا۔

ذکر خدا کی مجالس میں علاقے کے نوجوان اور کم عمر افراد بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں — فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی
ذکر خدا کی مجالس میں علاقے کے نوجوان اور کم عمر افراد بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں — فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی

’منن برگ‘ (Manenberg) میں مسلمان علما ہفتہ وار (ہر ہفتے کی جمعرات) کو علاقے میں ’ذکر خدا‘ کے نام سے عبادات کا اہتمام کرتے ہیں، جن میں نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی اور دیگر مذاہب کے پیروکار بھی شرکت کرتے ہیں۔

مسلمان علما کی جانب سے مذکورہ علاقے میں ’ذکر خدا‘ کی مجالس کا سلسلہ شروع کیے جانے سے قبل 2015 میں انتظامیہ نے ’منن برگ‘ (Manenberg) کو ’ریڈ زون‘ قرار دیا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقے میں پولیس کی جانب سے کلیئرنس نہ دیے جانے تک داخل نہیں ہوا جا سکتا تھا۔

’منن برگ‘ (Manenberg) میں اس قدر بدامنی پھیل جانے اور تشدد کی وجہ سے جہاں وہاں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی تھی، وہیں پر وہاں کے علاقہ مکینوں میں مذہبی تنگ نظری نے بھی ڈیرے ڈال رکھے تھے مگر پھر 2018 میں مسلمان علما نے ایک انوکھا قدم اٹھایا۔

ہفتہ وار مجالس علاقے کے کسی نہ کسی چوک پر کھلے عام منعقد ہوتی ہیں—فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی
ہفتہ وار مجالس علاقے کے کسی نہ کسی چوک پر کھلے عام منعقد ہوتی ہیں—فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی

مسلمان علما نے 2018 میں ’منن برگ‘ (Manenberg) کی کسی گلی، چوک یا مقام پر ہفتہ وار ’ذکر خدا‘ کی مجالس کا آغاز کیا، جس میں بلند آواز میں شرکا خدا کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں۔

ابتدائی طور پر مسلمان علما کو ایسی مجالس منعقد کرنے پر گنگ وار کا حصہ بننے والے افراد کی جانب سے کچھ مخالفت بھی برداشت کرنی پڑی تاہم جلد ہی حالات تبدیل ہوگئے اور ہتھیار چلانے والے گینگ وار کے ارکان ہی ’ذکر خدا‘ کی مجالس کے لیے چٹائیاں بچھانے لگے۔

’ذکر خدا‘ کی ان خصوصی مجالس کی خاص بات یہ ہے کہ مسلمان منتظمین ایسی مجالس میں کوشش کرکے کسی مسیحی عالم کو بھی مہمان خطیب کے طور پر مدعو کرتے ہیں۔

مذہبی مجالس میں مسیحی لوگ بھی احتراما شریک ہوتے ہیں—فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی
مذہبی مجالس میں مسیحی لوگ بھی احتراما شریک ہوتے ہیں—فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی

’ذکر خدا‘ کی مجالس منعقد کرنے والے منتظمین علاقے کے بچوں کو منشیات و ہتھیاروں سے دور رہنے کی ہدایت کرنے سمیت مجالس میں شریک ہونے کی دعوت بھی دیتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ایسی مجالس میں مسیحی افراد بھی شرکت کرتے ہیں۔

گزشتہ تین سال سے منعقد ہونے والی ان ’ذکر خدا‘ کی مجالس سے اب جہاں ’منن برگ‘ (Manenberg) میں امن کی فضا قائم ہو چکی ہے، وہیں علاقے میں مذہبی ہم آہنگی بھی پھیل رہی ہے جب کہ مسلمان منتظمین کا خیال ہے کہ وہ اپنے اس منفرد عمل سے مسلمانوں کا بہتر تشخص بھی بنا رہے ہیں۔

ہر مجلس کے بعد شرکا کو کچھ نہ کچھ غذا کھلائی جاتی ہے—فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی
ہر مجلس کے بعد شرکا کو کچھ نہ کچھ غذا کھلائی جاتی ہے—فوٹو: شیراز محمد/ بی بی سی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں