نظرثانی کیس: چیف جسٹس کے عہدے کو مفادات کے ٹکراؤ کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے، جسٹس عیسیٰ

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2021
عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس کی پوزیشن کو مفادات کے ٹکراؤ کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کے معاملے پر وفاق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت کی، جہاں فاضل جج نے خود دلائل دیے۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں اپنے وکیل منیر اے ملک کی طبیعت کی ناسازی کے باعث خود دلائل دے رہے ہیں۔

اس 10 رکنی بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: نظرثانی کیس: میرے اور اہل خانہ کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی گئی، جسٹس عیسیٰ

سماعت کے دوران عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کی طبیعت ناساز ہے اور وہ عدالت نہیں آسکتے۔

جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مسلسل تیسرے روز اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھا اور کہا کہ آئین سپریم کورٹ کی پالیسی کے بارے میں بات نہیں کرتا، آئین سپریم کورٹ کے رولز کی بات ضرور کرتا ہے۔

اس پر سربراہ بینچ جسٹس عمرعطا بندیال نے جسٹس عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالت نے یہ آبزرو کیا تھا کہ یہ انتظامی اور پالیسی معاملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز کون بناتا ہے، یہ رولز فل کورٹ ہی بناتی ہے، بینچ کے تمام ججز آپ کو سننا چاہتے ہیں۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین میں سپریم کورٹ کی پالیسی کا ذکر نہیں ہے، عدالت سے بنیادی حقوق آرٹیکل 19 اے کی عمل داری چاہتا ہوں، عدالتی بینچ اپنے جوڈیشل اختیارات سے سپریم کورٹ رولز پر فیصلہ دے سکتا ہے۔

اسی دوران بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی پہلے سوال سن لیں، آپ یہاں ہماری معاونت کے لیے کھڑے ہیں، اس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے سوال پوچھا ہے یا معاملے کا تعین کر رہے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ نے اس کیس کو براہ راست دکھائے جانے سے متعلق کہا کہ لائیو ٹیلی کاسٹ کا یہ پہلا ٹیسٹ کیس ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے متنازع کیس ذوالفقار علی بھٹو کا کیس ہے، سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے بعدازاں ذوالفقار بھٹو کیس میں دباؤ تسلیم کیا، اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کیس کی اپیل اوپن کورٹ میں ہوئی تھی؟ جس کے جواب میں جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں۔

ان کے اس جواب پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ اپنی لائیو ٹیلی کاسٹ (براہ راست نشر کرنے) کی درخواست پر توجہ مرکوز کریں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ امریکن عدالت میں صرف آڈیو ریکارڈ کی جاتی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میری ایک بات ادب سے سنیں پہلے پانی پی لیں، آپ اصل میں وکیل نہیں ہیں، عدالت یہاں آپ کو سننے کے لیے ہی بیٹھی ہے، بحث نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ کارروائی براہ راست دکھانے پر دلائل دیں، عدالت کے اختیارات کو چھوڑ دیں، اگر لائیو کوریج کا معاملہ فل کورٹ میں جاتا ہے تو کیا فل کورٹ میں بیٹھیں گے؟ اس کے جواب میں جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ فل کورٹ کا مجھے پہلے ایجنڈا موصول ہو گا پھر فیصلہ کروں گا۔

جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم جوڈیشنل کونسل (ایس جے سی) کے چیئرمین ہیں، چیف جسٹس فل کورٹ میٹنگ کی صدارت بھی کرتے ہیں، چیف جسٹس کی پوزیشن کو مفادات کے ٹکراؤ کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

ان کی بات پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کہتے ہیں انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے، کیا جب پاکستان میں ٹی وی نہیں تھا تو انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آتا تھا؟ جس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ کیا آپ مجھ سے سوال پوچھ رہے ہیں، اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ جی میں سوال پوچھ رہا ہوں۔

اس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے جسٹس منیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں معاونت کے لیے موجود ہیں۔

اس پر جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ اس طرح بات کرنا اچھی بات نہیں ہے، جس کے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سوال پوچھیں کمنٹ (تبصرہ) نہ کریں۔

عدالت میں جاری اس سماعت کے دوران سربراہ بینچ جسٹس عمر نے کہا کہ آپ جج کو سنیں وہ کیا پوچھ رہے ہیں، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنے چیمبر میں بیٹھ کر برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا کیس سنا۔

اپنے دلائل میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں ابتدا سے قرآن پاک نہیں پڑھایا جاتا جبکہ میری اہلیہ ایک امریکن اسکول میں پڑھاتی رہی ہیں جہاں پہلی جماعت سے ہی آئین پڑھانا شروع کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نظرثانی کیس: لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اپنی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ہمارے ہاں قرآن پاک کو اونچی جگہ پر رکھا جاتا ہے جبکہ جب میں حرم پاک گیا تو وہاں قرآن پاک کو نیچے رکھا دیکھ کر حیران ہوا، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم نے امریکن اسکول اور عمرہ سے متعلق آپ کو سن لیا اب آپ اپنے کیس کی بات کریں۔

دوران سماعت بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پنجاب میں ماتحت عدلیہ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کیمرے لگائے گئے ہیں، عدلیہ نے ہمشیہ ٹیکنالوجی کو قبول کیا ہے، ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدالتی نظام میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔

عدالتی ریمارکس پر اپنے دلائل دیتے ہوئے جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ آمر ٹی وی پر آکر کہتا ہے میرے عزیز ہم وطنو، میرے عزیز ہم وطنوں کو بھی ختم ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مجھ سے کسی بچے نے پوچھا اسٹیبلشمنٹ کیا ہوتی، میرے استفسار پر بچے نے کہا کہ ہر جگہ ہی چل رہا ہے۔

اسی دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی یہ سیاسی کمنٹ ہے اس سے پرہیز کریں۔

بعد ازاں جسٹس عیسیٰ نے دلائل دیے کہ لائیو ٹیلی کاسٹ سے برے وکلا کو بے نقاب کیا جائے، یہاں اچھے وکلا بھی ہیں اور برے وکلا بھی ہیں، فرض کر لیں اس مقدمے کی کارروائی لائیو ہوتی ہے، کیا عوام اس سے مستفید ہوں گیے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ لائیو ٹیلی کاسٹ سے عدالتی کارروائی میں مزید ڈسپلین (نظم و ضبط) آئے گا، ساتھ ہی انہوں نے دلائل دیے کہ ہمیں ماضی نہیں بھولنا چاہیے، 35 سال کا آمرانہ دور بہت ہو گیا۔

اس پر جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ آپ وہاں کھڑے ہوکر جو بات کر رہے ہیں وہ جج کی آبزویشن بن جائے گی، وکیل تو روسٹرم پر کھڑے ہو کر ادھر ادھر کی باتیں کر جاتے ہیں، آپ کی روسٹرم پر کی گئی باتیں بطور جج آپ کے سامنے آئیں گی۔

جسٹس منظور کے ریمارکس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ میں جج ہوں لیکن عدالت کے سامنے ایک درخواست گزار بھی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ لائیو ٹیلی کاسٹ کا حق مجھے نہیں ملنا بلکہ نظر ثانی کیس میں لائیو ٹیلی کاسٹ کا حق عوام کو ملنا ہے، جج کو عوام کی سطح پر بدنام کیا جاتا ہے، کیا جج کو لائیو ٹیلی کاسٹ میں سنا نہیں جا سکتا۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ لائیو ٹیلی کاسٹ کی درخواست کی مخالفت کریں گے، جس پر جسٹس عیسیٰ نے جواب دیا کہ فیڈریشن تو کیس کو ختم نہیں کرنا چاہتی تھی، یہ بظاہر کیس سے بھاگ رہے ہیں۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقدمے کو ہم نے لمبا نہیں کرنا، درخواست گزار کی مشکلات اور عدالتی مشکلات سامنے ہیں، دس رکنی لارجر بینچ سے دوسرے مقدمات متاثر ہورہے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کوئی شبہ نہیں کہ ٹیکنالوجی ہر شعبہ میں انقلاب لاتی ہے، ہم کھلے ذہن کے ساتھ بیٹھے ہیں، آپ آج جج سے وکیل بن گئے۔

سربراہ بینچ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اللہ کو راضی کرنے کے لیے کرنا ہے، خدا قسم لوگ دیکھ رہے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے لائیو ٹیلی کاسٹ پر وفاق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا اور کیس کی سماعت مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں 7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس پر نظرثانی کیلئے 10 رکنی بینچ تشکیل

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔

تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

اس معاملے پر عدالت کی جانب سے نظرثانی کے لیے پہلے ایک 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم درخواست گزروں نے 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو چیلنج کردیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تینوں ججز کو نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

جس کے بعد بینچ تشکیل کے معاملے پر سماعت ہوئی تھیں اور عدالت نے 10 دسمبر 2020 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔

بالآخر 22 فروری 2021 کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ کریں اور وہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں 23 فروری 2021 کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا جنہوں نے مرکزی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں