آئیوری کوسٹ میں 8 ماہ بعد دوسرے وزیر اعظم کا انتقال، ملک میں بے یقینی

اپ ڈیٹ 12 مارچ 2021
حامد بیکایوکو جولائی 2020 میں وزیراعظم منتخب ہوئے تھے— فوٹو: رائٹرز
حامد بیکایوکو جولائی 2020 میں وزیراعظم منتخب ہوئے تھے— فوٹو: رائٹرز

مغربی افریقی ملک آئیوری کوسٹ میں 8 ماہ بعد دوسرے وزیر اعظم حامد بیکایوکو کا انتقال ہوگیا جس کے بعد ملک میں غم اور بے یقنی پھیل گئی۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق آئیوری کوسٹ کے صدر الاسن اوتارا کے قریبی سجمھے جانے والے وزیر اعظم حامد بیکایوکو اپنی 56ویں سالگرہ کے کچھ دن بعد ہی کینسر کے باعث انتقال کر گئے۔

رپورٹ کے مطابق حامد بیکایوکو جولائی 2020 میں اس وقت کے وزیراعظم عمادو غون کولیبالے کے انتقال کے بعد وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔

صدر الاسن اوتارا نے حامد بیکایوکو کی علالت کے دوران ہی چیف آف اسٹاف پیٹرک آچی کو قائم مقام وزیر اعظم نامزد کیا تھا، تاہم اب حامد کے انتقال کے بعد ان کے مضبوط جانشین کی تقرری کے لیے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ان کا متبادل لانا بہت مشکل ہے کیونکہ ان کا کام کرنے کا انداز مختلف تھا، یہاں تک کہ جو سیاسی طور پر ان کے ساتھ نہیں ہوتا تب بھی وہ ان کے معاملات سدھارتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق حامد بیکایوکو تنازعات اور علیحدگی کا شکار رہنے والے مغربی افریقی ملک میں میڈیا سے مربوط رشتہ رکھنے والے رہنما کے طور پر ابھرے اور تنازعات کے تمام فریقین کے درمیان ثالث بن کر سامنے آئے تھے۔

تجزیہ کاروں نے بتایا کہ آئیوری کوسٹ کے عوام کے لیے حامد بیکایوکو سب کچھ تھے، ایک ایسے وزیر جو پوری آبادی کو سنتے تھے یہاں تک کہ حزب اختلاف کی آواز بھی سنتے تھے۔

آئیوری کوسٹ کے سابق علیحدگی پسند جنگجوؤں کو بھی ان پر اعتماد تھا، وہ 2017 میں وزیر دفاع بنے تھے اور وزیراعظم بننے کے بعد بھی یہ وزارت اپنے پاس رکھی۔

مقامی تاریخ دان آرتھر بنگا کا کہنا تھا کہ انہوں نے تنازعات ختم کرکے اصلاحات نافذ کیں جس کے نتیجے میں فوجیوں کو بھی 2020 کے صدارتی انتخاب میں سیاسی مداخلت سے دور ہونا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ فوجیوں، اعلیٰ عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان اعتماد بڑھانے میں کامیاب ہوئے تھے جس کے نتیجے میں 2017 سے اب تک بڑے پیمانے پر استحکام رہا۔

سابق جنگجو لیڈر اور بیکایوکو کے حکومت میں ان کا ساتھ دینے کے بعد الگ ہونے والے غوئیلومے سرو کا کہنا تھا کہ آج وہ ایک دوست اور بھائی سے محروم ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالات نے ہمیں مختلف سیاسی راستے اپنانے پر مجبور کیا اور بعض اوقات تو کشیدگی تک پہنچ گئے، لیکن اس کے باوجود ہم جانتے تھے کہ کس طرح برادری اور باہمی رشتہ برقرار رکھنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں