وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے مسئلہ کشمیر نے ہمیں روک کر رکھا ہوا ہے ہم تو کوشش کریں گے لیکن بھارت کو پہلا قدم لینا پڑے گا کیوں کہ بھارت پہلا قدم نہیں لیتا تو ہماری کوششیں آگے نہیں بڑھ سکتیں۔

اسلام آباد میں پہلے سیکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل ہوتا ہے تو یہ سارا خطہ تبدیل ہوجائے گا اور اس سے دونوں ممالک کا فائدہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ہم نے بہت کوشش کی کہ کس طرح مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے اور پڑوسیوں کی طرح تعلقات قائم کریں لیکن بدقمستی سے 5 اگست ہوا جس سے بہت بڑا دھچکا پڑا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بالکل ٹوٹ گئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ابھی بھی امید رکھتے ہیں کہ اگر بھارت کشمیریوں کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کے مطابق ان کا حق خودارادیت دے دے تو یہ خود بھارت کے لیے بھی اتنا مفید ہے جتنا پاکستان کے لیے۔

وزیراعظم کے مطابق بھارت کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہاں غربت ہے جس کو ہمارے معاشی و تجارتی تعلقات سے دور کرنے میں مدد ملے گی علاقائی روابط بڑھیں گے اور وہ بھی وسطی ایشیا سے منسلک ہوجائے گا۔

این ایس ڈی کے ایڈوائزری پورٹل کا اجرا

نیشنل سیکیورٹی ڈویژن نے وفاقی دارالحکومت میں پہلے اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا کہ جس کے پہلے روز ایک ایڈوائزری پورٹل کا اجرا کیا گیا۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اس پورٹل کا مقصد جامع سیکیورٹی فریم ورک کی بنیاد پر پاکستان کی نئی تزویراتی سمت کا تعین کرنا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کانفرنس کے پہلے روز بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی اور این ایس ڈی کے ایڈوائزری پورٹل کا اجرا کیا جس سے پالیسی میکنگ میں تھنک ٹینکس اور دانشوروں اور ماہرین کو منسلک ہونے کا موقع ملے گا۔

سیکیورٹی ڈائیلاگ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں اس مباحثے کی بہت ضرورت ہے کہ اصل میں قومی سلامتی کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اب تک قومی سلامتی کو صرف ایک پہلو سے دیکھتے رہے ہیں کہ ہم اپنی افواج کو جتنا مضبوط کریں گے اتنا ہی محفوظ ہوں گے لیکن اصل میں قومی سلامتی میں ایسی چیزیں مثلاً موسمیاتی تبدیلیاں بھی شامل ہیں جو اس سے قبل کسی نے نہیں سوچیں۔

یہ بھی پڑھیں: برصغیر میں عوام کو غربت سے نکالنے کا واحد راستہ تجارتی تعلقات ہیں، وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 5 سے 6 سال پہلے کوئی موسمیاتی تبدیلیوں کی بات ہی نہیں کرتا تھا، لیکن ہماری آنے والی نسل کے لیے موسمیاتی تبدیلیاں ایک ایسی چیز ہے جو سب مسائل پر بھاری پڑ سکتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ تجزیے موجود ہیں کہ خطرات کا شکار پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیاں ہماری نسلوں کے لیے خوفناک چیز ہے اور مجھے فخر ہے کہ ہماری حکومت نے اس پر اقدامات کیے لیکن اس سے قبل اسے قومی سلامتی کے تناظر میں کبھی دیکھا نہیں گیا۔

انہوں نے کہا کہ افواج کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک معاملہ آگیا ہے کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی پوری تیاری کرنی ہے اور قومی سلامتی کے لیے یہ بھی اہم ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر کے بعد ہمارا ملک جس عذاب سے گزار ہے اور جس طرح کے سیکیورٹی خطرات کا ہمیں سامنا تھا اس پر ہماری سیکیورٹی فورسز نے قربانیاں دے کر ہمیں محفوظ کیا۔

مزید پڑھیں: ملک سے غربت کے خاتمے کیلئے جہاد شروع کردیا، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ ہمیں دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں مثلاً موسمیاتی تبدیلیاں جبکہ ہمیں فخر ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہماری حکومت کی کاوشوں جیسا کہ 10 ارب درخت سونامی کو تسلیم کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے وہ اقدامات کیے ہیں جو دنیا میں بہت کم ممالک نے اٹھائے ہیں اور ہم ہر اس ملک کے ساتھ شامل ہوں گے جو پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت اقدامات کریں گے، مجھے خوشی ہے کہ امریکی حکومت نے اپنی گزشتہ 4 سال کی پالیسی تبدیل کر کے دوبارہ ماحولیاتی معاہدے میں شمولیت اختیار کی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک اور بہت بڑا مسئلہ خوراک کا تحفظ ہے، جتنی تیزی سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے پہلی مرتبہ ہم نے ایک سال میں 4 ملین ٹن گندم درآمد کی اور اپریل میں ہم ایک نیا اور جامع منصوبہ لے کر آرہے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں غذائی تحفظ کس طرح یقینی بنانا ہے کیوں کہ 2 سال کے عرصے میں ہمیں یہ احساس ہوا کہ قوم، سرکاری محکموں میں اس کی سوچ ہی موجود نہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوچ تو دور کی بات ہے کہ ہمارے پاس گندم کی پیداوار کا جائزہ ہی موجود نہیں تھا اور جتنے پیداواری جائزے موجود تھے وہ سب غلط نکلے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا سالِ نو پر غربت، جہالت، کرپشن اور ناانصافی کے خلاف جہاد کا عزم

انہوں نے کہا کہ اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس معاملے پر ہمیں سب سے زیادہ زور دینا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا غذائی تحفظ کس طرح کرنا ہے اور آبادی کا زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری آبادی دیگر ممالک سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس کے ساتھ اتنی ہی اہم چیز معیشت ہے، ہماری کمزوری یہ ہے کہ روایتی طور پر ملک میں آنے والے اور ملک سے جانے والے ڈالرز میں بہت بڑا فرق رہا ہے اور یہ خسارہ براہِ راست ہماری کرنسی پر اثر انداز ہوتا ہے اور جب کرنسی متاثر ہوتی ہے تو سب چیزیں متاثر ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے اشیائے خور و نوش مہنگی ہوجاتی ہیں، تیل، بجلی، ٹرانسپورٹ، دالوں کی درآمد، گھی، خوردنی تیل سب چیزوں کا اثر غریبوں پر پڑتا ہے اور ملک میں غربت بڑھ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے وہ کرنا ہے جو چین نے کیا تھا کہ انہوں نے 30 سے 35 سال میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکال کر اوپر کیا ہے اور اب حالیہ حکومت نے اس بات کا جشن منایا کہ انہوں نے چین سے شدید غربت ختم کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج فوڈ سیکیورٹی ہے، وزیراعظم

وزیراعظم نے کہا کہ چاہے کوئی چین کو پسند کرے یا نہ کرے لیکن یہ سب سے بڑی چیز ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے اور یہ سب سے زیادہ سیکیورٹی دیتی ہے کسی ملک کو کہ اس کا ہر شہری سمجھے کہ حکومت ہماری بھی فکر کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم کا کھڑا ہونا جس کا اس بات پر یقین ہو کہ اس ملک کو بچانے میں ہمارا مفاد ہے اس لیے ہماری معیشت اور اشرافیہ کا نظام کہ جس میں چند ایلیٹس کو تحفظ ملا ہے یہ سب سے بڑا پیراڈائم شفٹ ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ ملک کبھی بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جہاں چند افراد امیر ہوں اور غریبوں کا سمندر ہو، محفوظ وہ ممالک ہوتے ہیں جہاں سب کو یقین ہوتا ہے کہ یہ ہمارا ملک، ہماری حکومت ہے اس ملک میں ہمارا بھی مفاد ہے، جب تک لوگ اپنے ملک کو اپناتے نہیں وہ محفوظ نہیں ہوتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہمارے ملک میں 25 فیصد آبادی شدید غریب اور 25 فیصد وہ ہے جو ذرا سا دباؤ پڑنے پر خطِ غربت کے نیچے چلی جاتی ہے اور انہیں اوپر لانے کے لیے تخفیف غربت کا احساس پروگرام ہے جس میں کچھ چیزیں چین سے بھی لی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب حکومت ٹارگٹڈ سبسڈیز کا پروگرام لارہی ہے جسے عالمی سطح پر سراہا جائے گا جس میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ ہم نصف سے زائد آبادی کو ٹارگٹڈ سبسڈیز دیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت سبسڈیز سب کے لیے ہیں، گندم کے لیے میں بھی اتنی رقم دے رہا ہوں جتنا ایک غریب شخص ادا کررہا ہے لیکن اس میں بہت کام کرنا ہے کہ کس طرح ہر گھر کو گندم اور گھی پر سبسڈی دیں، کسانوں کو کھاد پر سبسڈی کیسے دیں، یہ ایک انقلاب ہوگا جس کا مقصد لوگوں کو اوپر اٹھانا ہے۔

خطے میں امن سے پاکستان جیو اسٹریٹجک لوکیشن سے فائدہ اٹھا سکتا ہے

وزیراعظم نے کہا کہ اس کے علاوہ معیشت اہم چیز ہے، ہمیں ملک کی معاشی نمو بڑھانی ہے اور اس کے لیے جب تک ہمارے خطے میں امن و استحکام، پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات، تجارتی روابط ٹھیک نہیں ہوں گے ہم پاکستان کی جیو اسٹریٹجک لوکیشن کا پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس خطے میں امن آجائے تو سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا کیوں کہ ہم چاروں طرف سے جڑے ہوئے ہیں، دنیا کی 2 بڑی منڈیوں سے منسلک ہیں یعنی چین کے ساتھ تو تعلقات ہیں اور بھارت سے بھی ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک جانب ایران ہے جس سے ہماری توانائی کی ضروریات پوری ہوسکتی ہے پھر افغانستان کے ساتھ وسطی ایشیا تک رابطہ ہے، لیکن اس لوکیشن کا فائدہ صرف اس وقت اٹھایا جاسکتا ہے جب خطے میں امن ہو۔

وزیراعظم نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہیں، افغانستان میں بڑے عرصے کے بعد امن کی ایک امید ملی ہے اور کسی کو بھی اسے کم نہیں سمجنا چاہیے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے اور اس میں بڑے چیلنجز ہیں کیوں کہ اگر کسی ملک میں 20 سال سے خانہ جنگی کی صورتحال ہو تو اس ملک میں دشمنیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں اور عدم اعتماد اتنا بڑھ جاتا ہے کہ قیام امن آسان نہیں رہتا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کا جتنا اسٹیک خود اس کے لیے ہے اس کے بعد پاکستان کے لیے ہے، افغان قیادت سے جتنی ملاقاتیں ہوئی اس میں سب پاکستان کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ وہ خشکی سے گھرا ملک ہے اسلیے اس کے لیے پاکستان انتہائی اہم ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ امن کی سب چابیاں افغانستان میں کھلتی ہیں اس کے لیے پاکستان جتنی کوشش کرسکتا تھا کیں لیکن مشکلات ہیں، نئی امریکی انتظامیہ آئی ہے اور وہ بھی یہی سمجھتی ہے کہ جنگ مزید نہیں چلنا چاہیے، ایک مرتبہ افغانستان ٹھیک ہوجائے تو خطے میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHALIL Mar 17, 2021 12:29pm
Security not essential for population who live under poverty First Elevate the population from poverty