’زارا‘ کی 20 ہزار روپے کی قمیض میں کیا خاص بات ہے؟

برانڈ نے اسے کاٹن کی بڑے سائز کی شرٹ کا نام دیا—اسکرین شاٹ/ زارا
برانڈ نے اسے کاٹن کی بڑے سائز کی شرٹ کا نام دیا—اسکرین شاٹ/ زارا

دنیا بھر کے فیشن ہاؤسز اپنے برانڈ کے نام کی وجہ سے عام لباس کو بھی ہزاروں روپے میں فروخت کرتے ہیں اور ایسے برانڈز کے مہنگے لباس عام طور پر جلدی فروخت بھی ہوجاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک لباس حال ہی میں اسپین کے فیشن برانڈ ’زارا‘ نے بھی فروخت کے لیے پیش کیا، جس کی قیمت انہوں نے پاکستانی تقریبا 20 ہزار روپے رکھی۔

’زارا‘ نے دراصل جنوبی ایشیا کے لباس ’قمیض‘ سے مشابہہ ’شرٹ‘ کو اپنی ویب سائٹ پر فروخت کے لیے پیش کرتے ہوئے اس کی رقم 90 برطانوی پاؤنڈ تک رکھی جو تقریبا پاکستانی 20 ہزار روپے بنتے ہیں۔

’زارا‘ کی جانب سے عام ’قمیض‘ کی طرح بنی شرٹ کو اتنے مہنگے داموں فروخت کرنے پر ایشیائی خواتین نے برانڈ کی آفر پر میمز بنائیں اور کہا کہ مذکورہ قمیض خریدنے سے اچھا ہے کہ وہ والدہ کی پرانی قمیض کو ’آلٹر‘ کروا کر پہنیں۔

’زارا‘ کی جانب سے تقریبا 20 ہزار روپے میں فروخت کے لیے پیش کی گئی خواتین کی قمیض کی اتنی بڑی رقم پر سب سے پہلے صحافی صبیحہ پرویز نے ٹوئٹ کی۔

صبیحہ پرویز نے ٹوئٹ کی کہ ’زارا‘ انہیں مہنگے داموں مختصر اسٹاک میں موجود قمیض فروخت کرنے کی کوشش نہ کرے، وہ 20 پاؤنڈ میں دکان سے کپڑے خرید کے والدہ کو دیں گی اور وہ ان کے لیے مفت میں کپڑے تیار کریں گی۔

صحافی کے مطابق ایسا کرنے وہ 70 پاؤنڈ کی رقم یعنی پاکستانی تقریبا 15 ہزار روپے کی بچت کرلیں گی۔

صحافی کی ٹوئٹ پر متعدد خواتین نے کمنٹس کیے اور بتایاکہ کس طرح ان کے گھروں میں ان کی مائیں کپڑے تیار کرتی ہیں اور وہ کیوں اتنی مہنگی قمیض پہنے جو بظاہر 1980 کے فیشن اسٹائل کی طرح دکھائی دیتی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ’ؔزارا‘ کی جانب سے فروخت کے لیے پیش کی گئی سادہ ’قمیض‘ کی اتنی زیادہ قیمت رکھی گئی ہو، اسپینش برانڈ کو اس سے قبل بھی مہنگے داموں لباس فروخت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

’زارا‘ کا شمار دنیا کے معروف ترین برانڈز میں ہوتا اور اس برانڈ نے چند سال قبل ہی دیسی یعنی جنوبی ایشیائی طرز کا لباس فروخت کرنا شروع کیا تھا۔

’زارا‘ کو جہاں دنیا کے مہنگے برانڈز میں شمار کیا جاتا ہے، وہیں اس برانڈ کو سستا برانڈ بھی قرار دیا جاتا ہے اور اس برانڈ کی مصنوعات کئی ممالک میں سستے داموں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں