جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی فواد چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست

اپ ڈیٹ 22 مارچ 2021
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ ‏‏فواد چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ ‏‏فواد چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے وفاقی وزیر فواد چوہدری کے خلاف ‏‏توہین عدالت کی درخواست دائر کردی۔

سرینا عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ‏‏گیا ہے کہ فواد چوہدری نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے متعلق توہین آمیز ٹوئٹ کی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فواد چوہدری نے وزارت کے لیے اٹھائے گئے اپنے حلف اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی کی اور عدالت عظمیٰ کے ایک سابق چیف جسٹس اور حاضر جج کا مذاق اڑایا۔

یہ بھی پڑھیں: انڈر ٹرائل جج کو جواب دیا تو دکھ ہوا اور توہین ہوگئی کے بھاشن آجائیں گے، فواد چوہدری

درخواست میں کہا گیا کہ اگر کوئی وفاقی وزیر پاکستان کی سب سے اعلیٰ عدالت کے کسی جج کی اس انداز میں تضحیک کرسکتا ہے تو ان کے احکامات پر ٹوئٹر بریگیڈ اور ففتھ جنریشن وار فیئر کے جنگجو تو اس سے برا کرسکتے ہیں۔

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرے شوہر معزز عدالت کے ایک جج ہیں کوئی انڈر ٹرائل قیدی نہیں اور بحیثیت ایک وکیل فواد چوہدری کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایک 'انڈر ٹرائل جج' کہہ کر اس عدالت اور اس کے ایک حاضر جج کی توہین کی ہے، ساتھ ہی سابق چیف جسٹس کو 'گاڈ فادر' کہا، یہ اصطلاح جرائم پیشہ افراد کے سرغنہ کے لیے استعمال ہوتی ہے اور یہ اس عدالت کی عزت و وقار پر حملہ ہے اور معزز عدالت کی سنگین توہین ہے۔

سرینا عیسیٰ کاکہنا تھا کہ میرے شوہر کو جب اس ملک کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا وہ اس وقت سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ فواد چوہدری کے ٹوئٹس 'ایک عدم متعصب اور مطلق العنان حکومت ظاہر کرتے اور بے اختیار سپریم کورٹ کی تصویر پیش کرتے ہیں، جس کے سنگین اثرات ہیں اور یہ اس عدالت کی ساکھ اور آزادی کو مجروح کرتا ہے'۔

اپنی درخواست میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ‏‏فواد چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کر کے انہیں مناسب سزا دی جائے، عہدے سے ہٹایا جائے اور انہیں ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کرنے کا حکم دیا جائے۔

خیال رہے کہ جمعہ کے روز وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے سپریم کورٹ کے ایک جج کا نام لیے بغیر ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ اگر سیاست کا شوق ہے تو مستعفی ہوکر کونسلر کا الیکشن لڑیں۔

ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے لکھا تھا کہ 'ایک ہفتے سے سپریم کورٹ کے ایک انڈر ٹرائل جج کی تقریریں سن رہے ہیں، اگر جواب دیا تو دکھ ہوا سے لے کر توہین ہوگئی کے بھاشن آجائیں گے'۔

ساتھ ہی وفاقی وزیر نے سپریم کورٹ کے مذکورہ جج کو کہا کہ اگر آپ کو بھی اپنے ’گاڈ فادر‘ افتخار چوہدری کی طرح سیاست کا شوق ہے تو مستعفی ہوکر کونسلر کا الیکشن لڑیں آپ کو مقبولیت اور قبولیت دونوں کا اندازہ ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں: عدلیہ کے خلاف فِفتھ جنریشن وار شروع کردی گئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اگرچہ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنی ٹوئٹ میں کسی سپریم کورٹ کے جج کا نام نہیں لکھا تھا تاہم اس وقت سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔

مذکورہ کیس نظرثانی کیس ہے جو جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر دائر نظرثانی درخواستوں سے متعلق ہے۔

اس نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس عیسیٰ نے ایک متفرق درخواست بھی دائر کی ہے جس میں مذکورہ کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی استدعا کی گئی تھی اور اس پر عدالت فیصلہ محفوظ کرچکی ہے۔

سپریم کورٹ میں نظرثانی کیس کی براہ راست سماعت نشر کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود ہی دلائل دیے تھے کیونکہ مذکورہ معاملے کی سماعت کے آغاز سے ہی ان کے وکیل منیر اے ملک کی طبیعت ناساز تھی اور وہ عدالت میں دلائل نہیں دے سکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: خود کو ملک کا مالک سمجھنے والے پاگل ہیں یا فرعون، جسٹس قاضی فائز

جسٹس عیسیٰ کی جانب سے کیس کی سماعت کے دوران سخت دلائل دیکھنے میں آئے جس میں حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ عدلیہ کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کردی گئی ہے۔

یہ بھی مدنظر رہے کہ 19 جون کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں