‏براڈ شیٹ کمپنی کو 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا ریکارڈ غائب ہے، کمیشن کا انکشاف

اپ ڈیٹ 22 مارچ 2021
کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید شیخ کررہے ہیں— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید شیخ کررہے ہیں— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

براڈ شیٹ انکوائری کمیشن نے ‏کمپنی کو 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا ریکارڈ غائب ہونے کا انکشاف کیا ہے۔

براڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ اور متعلقہ ریکارڈ 500 صفحات پر مشتمل ہے جسے وزیراعظم ہاؤس میں جوائنٹ سیکریٹری زاہد مقصود نے وصول کیا۔

واضح رہے کہ 29 جنوری کو حکومت نے براڈ شیٹ انکوائری کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز جاری کرتے ہوئے کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید شیخ سونپی تھی اور 9 فروری کو کمیشن نے تحقیقات کا باضابطہ آغاز کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: براڈ شیٹ معاملے میں کی گئی ادائیگی، ماضی کی ڈیلز کی قیمت ہے، شہزاد اکبر

کمیشن کو 1990 سے منظر عام پر آنے والے میگا کرپشن کیسز کی تحقیقات کا اختیار دیا گیا تھا۔

براڈ شیٹ انکوائری رپورٹ کے مطابق ایک سابق خاتون لیگل کنسلٹنٹ طلبی کے باوجود کمیشن میں پیش نہ ہوئیں۔

اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ براڈشیٹ انکوائری کمیشن 100 صفحات پر مشتمل رپورٹ ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ رپورٹ کے ساتھ مخلتف شخصیات کے بیانات اور دستاویزات کو الگ رکھا گیا ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ براڈ شیٹ کمپنی کو 15 لاکھ ڈالر رقم کی غلط طریقے سے ادائیگی کی گئی اور مذکورہ ادائیگی کو صرف بے احتیاطی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ ‏وزارت خزانہ، قانون اور اٹارنی جنرل آفس سے متعلقہ فائل چوری ہو گئیں۔

مزید پڑھیں: براڈ شیٹ اسکینڈل پر بنائی گئی کمیٹی انکشافات کرے گی، شبلی فراز

کمیشن رپورٹ کے مطابق پاکستانی ہائی کمیشن لندن سے بھی ادائیگی کی فائل سے اندراج کا حصہ غائب ہوگیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ادائیگیاں 2008 میں ہوئی تھیں۔

خیال رہے کہ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز کے مطابق کمیشن مقامی اور بین الاقوامی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات اور اسکینڈل مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف سرے محل اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ان کیسز کی دوبارہ تحقیقات کرے گا جن کا ذکر برطانوی اثاثہ برآمدگی کمپنی براڈ شیٹ نے کیا۔

انکوائری کمیشن کو کرپشن کے خطرے اور اعلیٰ سرکاری عہدوں کے حامل افراد کی بدعنوانیوں کی تحقیقات کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی جس کے نتیجے میں اربوں ڈالر پاکستان سے بیرونِ ملک محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے اور پاکستان کے عوام کو ناقابل تلافی مالی نقصان پہنچا۔

کمیشن، حکومت پاکستان کی جانب سے سال 1990 سے کی جانے والی ان قانونی کارروائیوں اور برآمدگی کی کوششوں سے متعلق واقعات اور کیسز کی شناخت کرے گا جو بیرونِ ملک غیر قانونی طور پر منتقل کیے گئے اثاثوں اور رقم کے لیے کی گئی۔

براڈشیٹ ایل ایل سی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ 2000 میں پاکستانی شہریوں کے غیر ملکی اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے معاہدہ کیا تھا لیکن یہ معاہدہ 2003 میں منسوخ کردیا گیا تھا۔

سال 2018 میں جب سے برطانوی عدالت نے کمپنی کو پاکستانی حکومت کی جانب سے 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا فیصلہ سنایا اس وقت سے کمپنی اپنی ادائیگی کو محفوظ کرنے کے لیے متعدد کوششیں کرچکی ہے اور حالیہ ادائیگی بھی اسی سلسلے کی تازہ ترین پیش رفت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: براڈ شیٹ کے مالک نے مسلم لیگ (ن) کا جھوٹ بے نقاب کردیا، شہزاد اکبر

ثالثی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ پاکستان اور قومی احتساب بیورو(نیب) نے غلط طریقے سے براڈ شیٹ کے ساتھ کیا گیا اثاثہ برآمدگی معاہدہ ختم کیا اور کمپنی کو نقصان کی ادائیگی کیے جانے کا فیصلہ سنایا۔

اسی دوران کمپنی نے ایون فیلڈ ہاؤس کے 4 فلیٹوں پر اپنا دعویٰ کیا، براڈ شیٹ نے پاکستانی حکومت کو خط لکھ کر نیب پر واجب الادا رقم حاصل کرنے کے لیے 'پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اثاثے ضبط' کرنے بھی دھمکی دی تھی۔

اسی سلسلے میں 19 جون 2020 کو براڈ شیٹ نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ حکومت پاکستان اور نیب پر واجب الادا رقم کی برآمدگی کے طور پر ایون فیلڈ ہاؤس کے اپارٹمنٹس منسلک کرنے کا حکم جاری کیا جائے گا۔

کمپنی نے یہ دلیل دی تھی کہ جولائی 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے تناظر میں نیب ان اپارٹمنٹس سے مستفید ہونا قرار پایا تھا۔

تاہم شریف خاندان کے وکیل نے اس دعوے کا مقابلہ کیا اور کہا تھا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ حکومت پاکستان یا نیب کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں کسی فائدے کا حقدار نہیں ٹھہراتا۔

بعدازاں براڈ شیٹ ایک تیسرے فریق کے حکم کے تحت اپنی ادائیگی کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوگئی جس کے تحت برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے بینک اکاؤنٹ سے کمپنی کو 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔

اس پیش رفت سے چند ہفتوں قبل 2 دسمبر 2020 کو کمپنی کے وکیل نے ہائی کورٹ میں دائر کردہ اپنا دعویٰ واپس لے لیا تھا۔

عدالت نے اسی روز ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو ڈسچارج کرنے کا حکم دیا تھا، نتیجتاً براڈ شیٹ شریف خاندان کو قانونی اخراجات کی ادائیگی کی پابند ہوگئی تھی کیوں سول کیسز کے رائج عمومی قواعد کے مطابق کیس ہارنے والا فریق جیتنے والے کو قانونی اخراجات ادا کرتا ہے۔

حکومت نے گزشتہ برس براڈشیٹ ایل ایل سی کو 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ہرجانہ ادا کیا تھا۔

براڈشیٹ کمپنی نے پاکستانی حکومت سے رقم وصول کرنے کے بعد ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر اپنا دعویٰ واپس لے لیالیکن شریف خاندان کو قانونی اخراجات کی مد میں 20 ہزار پاؤنڈ ادا کردیے۔

تبصرے (0) بند ہیں