ویکسین کی سب تک رسائی یقینی بنانے کیلئے نجی شعبے کو درآمدات کی اجازت دی، محکمہ صحت

اپ ڈیٹ 24 مارچ 2021
سیکریٹری صحت عامر اشرف خواجہ نے کہا کہ تمام 22 کروڑ افراد کی فوری ویکسینیشن ممکن نہیں—فائل فوٹو: اے پی
سیکریٹری صحت عامر اشرف خواجہ نے کہا کہ تمام 22 کروڑ افراد کی فوری ویکسینیشن ممکن نہیں—فائل فوٹو: اے پی

محکمہ صحت نے کورونا ویکسین کی نجی شعبے کو درآمد کی اجازت دینے کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد معاشرے کے تمام طبقات کی بروقت ویکسین تک رسائی یقینی بنانا ہے۔

سیکریٹری صحت عامر اشرف خواجہ نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے تحفظات کا بذریعہ خط جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان دستیاب وسائل کے ساتھ کووڈ-19 کے خلاف جنگ کے لیے پرعزم ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کورونا ویکسین کی نجی شعبے کو درآمد کی اجازت نہ دیں، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت نے وبا کا پھیلاؤ روکنے، ٹیسٹنگ تیز کرنے، صحت کی سہولیات سے لیس اور وائرس کا شکار مریضوں سے نمٹنے کے لیے بے انتہا کوششیں کی ہیں اور اب سب سے زیادہ کمزور افراد سے عام آبادی کی ویکسینیشن کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ان کوششوں کو وقتاً فوقتاً دنیا نے بھی تسلیم کیا ہے اور گو کہ یہ جنگ ابھی ختم ہونے سے کافی دور ہے لیکن ہم اپنی پالیسیاں بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ جانیں بچانے کی کوشش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان پالیسیوں میں سے ایک کووڈ-19 کی ویکسینیشن جزوی طور پر نجی شعبے سے کرانا ہے اور وفاقی حکومت نے نجی شعبے کو ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے کیونکہ قومی ویکسینیشن کے عمل میں محکمہ صحت کے عملے اور بزرگ لوگوں کو ترجیح دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے معاشرے کے دیگر طبقات تک ویکسین کی رسائی میں تاخیر ہو رہی ہے اور پاکستان جیسے 22 کروڑ آبادی والے ملک میں اس بات کی توقع کی جا رہی تھی۔

انہوں نے خط میں مزید تحریر کیا کہ حکومت نے اسی لیے پالیسی سازی کرتے ہوئے نجی شعبے کو ویکسین کی درآمد کی اجازت دی ہے تاکہ معاشرے کے ان دیگر طبقات کا بھی احاطہ کیا جا سکے اور ان تک ویکسین کی رسائی یقینی بنائی جا سکے جو حکومت کی فوری ترجیحی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا مخصوص اضلاع میں تعلیمی ادارے 11 اپریل تک بند رکھنے کا اعلان

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے قیمت کے حوالے سے اٹھائے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے تحریر کیا کہ حکومت زیادہ سے زیادہ قیمت کا تعین کررہی ہے تاکہ مقابلے سازی کی فضا کو برقرار رکھا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ کووڈ-19 ویکسین کے سلسلے میں مارکیٹ میں رجحانات کا انحصار بڑے پیمانے پر فروخت پر ہوتا ہے جو عموماً لاکھوں میں ہوتی ہیں لہٰذا چھوٹی کمپنیوں اور اداروں کے لیے کم تعداد میں ڈوز تک رسائی کافی مشکل ہو گی۔

انہوں نے خط کے اختتام پر تحریر کیا کہ ڈوز کی تعداد چاہے کچھ بھی ہو لیکن یہ ویکسین بالآخر لوگوں کی جانیں بچانے کے کام آئے گی۔

یاد رہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل پاکستان کی چیئرپرسن جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر نجی شعبے کو کورونا ویکسین کی درآمد کی اجازت دینے کی پالیسی پر نظرثانی کی درخواست کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو نجی شعبے کو کووڈ-19 ویکسین درآمد اور فروخت کرنے کی اجازت دے گا اور اس سے بدعنوانی کی راہ کھل جائے گی کیونکہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ حکومت کی ویکسین نجی ہسپتالوں کو فروخت کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا سے تحفظ کی جعلی ویکسین و رپورٹس کی آن لائن فروخت کا انکشاف

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی چیئرپرسن نے پاکستان میں کورونا ویکسین کے دو ڈوز کی قیمت ساڑھے 8 ہزار مقرر کرنے پر تشویش کا اظہار کیا کیونکہ دنیا کے دیگر ممالک میں اس کی قیمت کافی کم ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ عالمی سطح پر اسپٹنک- V ویکسین کی طے شدہ قیمت 10 ڈالر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اسپٹنک- V ویکسین کی دو خوراکیں 20 ڈالر میں دستیاب ہیں، البتہ پاکستان میں اس کی تجارتی فروخت کی منظور شدہ قیمت بین الاقوامی قیمت کے مقابلے میں 160 فیصد زیادہ ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ہندوستان میں گامالیہ سینٹر/ اسپٹنک- V ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت 734 بھارتی روپے سے بھی کم ہے، اس شرح کے ساتھ کرنسی کی مالیت میں فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں اسپٹنک- V کی قیمت 1،500 روپے ہونی چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں