رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

اگر آپ کا شمار بھی دبئی، دوحہ یا شارجہ جیسے خلیجی ممالک میں رہنے والے یا کام کرنے والے پاکستانیوں میں ہوتا ہے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہاں نوکری تبدیل کرنا کتنا مشکل کام ہے۔

امریکا میں تو نوکری کے لیے لیا گیا ایچ 1 بی ویزا کو ایک آجر سے دوسرے پر منتقل کروایا جاسکتا ہے لیکن کفالہ نظام میں یہ سہولت نہیں ہے۔ اگر کفالہ کو ایک سے دوسرے آجر پر منتقل کرنا ہو تو اس کے لیے پہلے آجر کی قانونی گواہی درکار ہوتی ہے جس میں وہ اپنے ملازم کو نوکری تبدیل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

ظاہر ہے کہ اس وجہ سے اگر کوئی ملازم کام کے حالات اور تنخواہ سے ناخوش ہو اور اس کے پاس کسی بہتر نوکری کی آفر ہو تب بھی وہ اپنی نوکری تبدیل نہیں کرسکتا۔

سیدھی سی بات ہے کہ ایک آجر کبھی بھی کام کرنے کے حالات یا تنخواہوں کو بہتر کرنے پر توجہ نہیں دیتا کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ملازمین اس کی اجازت کے بغیر کوئی دوسری نوکری نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے اگر کوئی ملازم نوکری چھوڑنا بھی چاہے تو اسے پہلے اپنے ملک واپس جانا ہوتا ہے جو اکثر لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔

گزشتہ ستمبر، قطر وہ پہلا ملک بن گیا جس نے اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے قوانین کی منظوری دی۔ ان مجموعہ قوانین کا اب نفاذ ہونے جارہا ہے۔ ان قوانین کے مطابق قطر میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدوروں کو اب نوکری تبدیل کرنے کے لیے اپنے آجر کی گواہی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس طرح خلیجی ممالک میں کام کرنے والے مزدوروں کو درپیش ایک بڑی مشکل دُور ہوجائے گی اور آجر اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور کام کے حالات کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دیں گے۔

نئے کفالہ قوانین کے علاوہ قطر نے متحدہ عرب امارات کی طرح 30 اگست 2020ء کے بعد سے ملازمت حاصل کرنے والے ہر ملازم کے لیے کم از کم ماہانہ تنخواہ 275 ڈالر مقرر کی ہے۔ اس کے علاوہ ایک آجر کو اپنے ملازمین کو رہائش فراہم کرنی ہوگی یا پھر رہائش کے بدلے ملازم کو ماہانہ 213 ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔

کفالہ قوانین کے برخلاف یہ قانون سازی کوئی بہت اعلیٰ مثال نہیں ہے۔ کم از کم تنخواہ کے لیے مقرر کی گئی رقم وہاں زندگی گزارنے کے لیے درکار اوسط رقم سے بہت کم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قطر کی ناکہ بندی کے بعد سے اشیائے خور و نوش اور دیگر چیزوں کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یوں یہ بنیادی اشیا مزدوروں کی پہنچ سے باہر ہوگئیں ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں تو کئی جگہوں پر کم از کم آمدن اس سے بھی کم ہے۔

قطر کو اس اقدام پر مبارکباد پیش کرنی چاہیے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے بار بار یہ توجہ دلائی گئی کہ کفالہ کا نظام غلامی کی ایک شکل ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ کسی مزدور کو ایک ہی آجر کے ساتھ باندھ دینے سے مزدور سخت شرائط پر عمل کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔ مزدور یا تو ان مشکل حالات (جن میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی بھی شامل ہے) کو برداشت کرتا ہے یا پھر اپنے ملک واپس چلے جانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ان مزدوروں نے بیرون ملک جانے کے لیے ہی اتنے قرضے لے رکھے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے وطن واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بدسلوکی کا یہ رویہ ایک طویل عرصے سے سیکڑوں مزدوروں کے ساتھ جاری ہے۔

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ قطر میں ان قوانین کی وجہ اگلے سال قطر کی میزبانی میں ہونے والا فیفا ورلڈ کپ ہے۔ اگلے ہی روز ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فیفا کے صدر گیانی انفنٹینو کو ایک کھلا خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے کفالہ کے نظام اور آجر کی تبدیلی پر قطری شوریٰ قونصل کے سخت گیر مؤقف پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قطر میں شاید ہی ملازمت کے قوانین عملی طور پر نافذ ہوئے ہوں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ فیفا کو چاہیے کہ قطر کو ورلڈ کپ کے لیے چننے سے پہلے یہاں مزدوروں کے ساتھ جاری بدسلوکی کو بھی مدنظر رکھے۔ قطر کو منتخب کرنے کے بعد بھی یہ فیفا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ مزدوروں کے ساتھ مزید زیادتی نہ ہو۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خط میں قطر کی جانب سے کفالہ نظام میں تبدیلیوں کے محرک کو واضح کیا گیا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ فیفا کا دباؤ تھا جسے خود بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کا سامنا تھا۔ بہرحال قطر کا ان نئے قوانین کے نفاذ سے اتنا معاشی نقصان نہیں ہوگا جتنا نقصان مزدوروں سے بدسلوکی سامنے آنے پر فیفا ورلڈ کپ کی منسوخی یا شائقین کی جانب سے اس کے بائیکاٹ کی صورت میں ہوگا۔

بہرحال ان قوانین کی وجوہات جو بھی ہیں لیکن ان سے یہ امید ضرور پیدا ہوئی ہے کہ خطے میں قطر کے حریف ممالک بھی اسی قسم کی قانون سازی کرسکتے ہیں۔ اگر کھیلوں کے بین الاقوامی ایونٹ کے لیے میزبان ممالک کے انتخاب سے پہلے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو مدنظر رکھا جائے تو متحدہ عرب امارات اور خطے کے دیگر ممالک بھی اپنی سرزمین پر کام کرنے والے مزدوروں کو بہتر سہولیات اور تنخواہیں فراہم کرنے پر مجبور ہوں گے۔

فیفا ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے آنے والے غیر ملکی شائقین یہاں اچھا وقت گزارنے آئیں گے۔ ان کے اچھے وقت کو اس بات کے ادراک سے زیادہ اور کیا چیز خراب کرسکتی ہے کہ یہاں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے جبکہ ان کے آجر خوب دولت کما رہے ہیں۔

قطری شہری تو شاید اس سلوک کو نظر انداز کرنے کے عادی ہوچکے ہوں لیکن غیر ملکی فیفا شائقین اسے بالکل نظر انداز نہیں کریں گے۔ یہی خطرہ قطر میں تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ قطری حکومت فیفا ورلڈ کپ گزرنے کے بعد پرانے ظالمانہ نظام کو دوبارہ نافذ نہ کردے۔


یہ مضمون 24 مارچ 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں