کورونا وائرس کی وبا کے آغاز پر یہ تصور کیا جاتا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد بیماری کا سامنا نہیں ہوتا۔

مگر اب یہ معلوم ہوچکا ہے کہ ایسا ہر مریض کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے ایسے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جن کو طویل المعیاد اثرات یا عرف عام 'لانگ کووڈ' کا سامنا ہوتا ہے۔

اگرچہ وائرس تو جسم میں نہیںہوتا مگر پھر بھی علامات کئی ہفتوں یا مہینوں تک برقرار رہتی ہیں اور ایسے افراد کی دنیا بھر میں لاکھوں یا کروڑوں میں ہوسکتی ہے۔

حال ہی میں برطانیہ کے ادارہ شماریات کے 20 ہزار سے زیادہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد کے سروے میں دریافت کیا گیا تھا کہ ہر 5 میں سے ایک کو صحتیابی کے 5 سے 12 ہفتوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

ان افراد میں سب سے عام علامات تھکاوٹ (11.8 فیصد)، کھانسی (11 فیصد)، سردرد (10 فیصد) اور مسلز میں تکلیف (7.7 فیصد) thiN.

محققین کے مطابق برطانیہ میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد کو لانگ کووڈ کا سامنا ہے۔

مختلف تحقیقی رپورٹس میں بھی لانگ کووڈ کے جسمانی اعضا بشمول دل کی شریانوں، پھیپھڑوں، گردوں اور دیگر پر مرتب اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

حال ہی میں ایک نئی تحقیق میں برطانیہ بھر میں ہسپتالوں کا جائزہ لینے پر لانگ کووڈ کی علامات بشمول تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، دماغی دھند، سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی، ذہنی بے چینی، ڈپریشن، ذہنی صدمے، سردرد اور نیند کے مسائل کو دریافت کیا گیا۔

محققین نے لانگ کووڈ کے مریضوں کے علاج کے لیے گائیڈلائنز بھی جاری کیں۔

امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر ایلینا وائے وان نے اس حوالے سے کہا 'کووڈ 19 پہلی وبائی بیماری ہے جس کے میں نے جسمانی اعضا پر اس طرح کے اثرات مرتب ہوتے دیکھتے ہیں، جس سے میری طبی پریکٹس کو بدل دیا'۔

ویسے تو بظاہر کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار رہنے والے افراد میں لانگ کووڈ کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے مگر معمولی بیمار رہنے والے افراد کو بھی اس کا تجربہ ہوسکتا ہے۔

اپریل 2021 میں سوئیڈن کے کیرولینسکا انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے ہر 10 میں سے ایک مریض کو صحتیابی کے بعد طویل المعیاد بنیادوں پر کم از کم ایک معتدل یا سنگین علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

اس تحقیق پر 2020 کے موسم بہار سے کام ہورہا تھا جس کا مقصد کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد بیماری کے خلاف مدافعت کی مدت کو جاننا تھا۔

طبی ورکرز پر ہونے والی تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہوکر اسے شکست دینے والے 26 فیصد افراد کو کم از کم ایک معتدل سے سنگین علامت کا سامنا ہوا جو 2 ماہ سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی۔

سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل سب سے عام علامات تھیں۔

اس تحقیق میں 2 ہزار سے کچھ زیادہ افراد شامل تھے اور چھوٹی قرار دی جاسکتی ہے مگر دیگر تحقیقی رپورٹس میں بھی عندیہ دیا گیا کہ کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونے والے افراد کو بھی طویل المعیاد اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ لانگ کووڈ کی وجہ کیا ہے یعنی یہ جسم میں وائرس کی معمولی مقدار کا باقی رہ جانا ہے یا جسم کے اپنے مدافعتی ردعمل سے اعضا کو پہنچنے والے نقصان کا نتیجہ۔

کچھ ابتدائی نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 ویکسین سے لانگ کووڈ کی علامات میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے تاہم اس حوالے سے ابھی کسی باقاعدہ تحقیق کے نتائج سامنے نہیں آئے۔

تاہم اس وقت جاری ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسینیشن کے بعد لانگ کووڈ کے 20 فیصد مریضوں کی علامات دور ہوگئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں