ٹی ایل پی سربراہ سعد رضوی، اعلیٰ قیادت کیخلاف دہشت گردی اور قتل کا مقدمہ

اپ ڈیٹ 13 اپريل 2021
انسداد دہشت گردی ایکٹ اور امن عامہ آرڈیننس کے تحت درج مقدمات میں پولیس اہلکار کے قتل کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے— فوٹو بشکریہ
انسداد دہشت گردی ایکٹ اور امن عامہ آرڈیننس کے تحت درج مقدمات میں پولیس اہلکار کے قتل کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے— فوٹو بشکریہ

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد حسین رضوی، مرکزی قیادت اور کارکنان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ اور امن عامہ آرڈیننس کے تحت قتل، اقدام قتل، دہشت گردی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

ایف آئی آر شاہدرہ ٹاؤن کے تھانے میں ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کرائی گئی ہے اور اس میں تحریک لبیک کے سربراہ سعد حسین رضوی کے ساتھ ساتھ مرکزی رہنماؤں قاضی محمود احمد قادری، پیر سید ظہیر الحسن شاہ، مولانا غلام غوث بغدادی، مہر محمد قاسم، مہر محمد قاسم، محمد اعجاز رسول اور دیگر کو نامزد کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی کو لاہور میں گرفتار کر لیا گیا

ایف آئی آر کے مطابق سعد رضوی کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ اور احتجاج کرنے والوں نے پولیس پارٹی پر جان سے مارنے کی نیت سے حملہ اور پتھراؤ کیا۔

پولیس نے مظاہرین کو محمد افضل نامی اہلکار کی ہلاکت کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا کہ ایس ایچ او کی زیر سربراہی پولیس ٹیم رات دو بجے صورتحال کا جائزہ لینے شاہدرہ چوک پہنچی۔

اس ٹیم میں کانسٹیبل محمد افضل بھی شامل تھے اور جیسے ہی ٹیم صورتحال کا جائزہ لینے پہنچی، ان پر حملہ کردیا گیا جس کے نتیجے میں کانسٹیبل افضل شدید زخمی ہو گئے اور ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

پولیس نے ایف آئی آر میں دعویٰ کیا کہ مذہبی جماعت کے کارکن اہلکار محمد افضل کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے اور ان پر تشدد کیا اور جب کانسٹیبل کو ان کے قبضے سے چھڑایا گیا تو وہ شدید زخمی تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی سربراہ گرفتار، مختلف شہروں میں احتجاج اور دھرنوں سے ٹریفک جام

ایف آئی آر میں ٹی ایل پی کی مرکزی قیادت پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے سوشل میڈیا اور مساجد سے اعلانات کر کے عوام کو اکسا کر گھروں سے نکلنے کی ترغیب دی اور زبردستی ملک بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کی ہدایات جاری کیں۔

تحریک لبیک کے رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، ہجوم کو تشدد پر اکسانے، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے درج کیا گیا ہے۔

ٹی ایل پی قیادت اور دیگر رہنماؤں کارکنوں کے خلاف دفعہ 302، 334، 365، 383، 186، 147، 148، 149، 290، 291 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ انسداد دہشت ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 اور پنجاب پبلک مینٹیننس آرڈر آرڈیننس کی دفعہ 16 کو بھی ایف آئی آر کا حصہ بنایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پولیس نے تحریک لبیک کے سربراہ علامہ سعد حسین رضوی کو گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی دھرنا: وزارت داخلہ کا قانون توڑنے والوں سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ

ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں تحریک لبیک کے کارکنوں نے احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا جس کی وجہ سے ملک کے مختلف شہروں میں بدترین ٹریفک جام ہو گیا تھا اور دفاتر سے گھروں کو لوٹنے والے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

احتجاج کے دوران 2 افراد ہلاک جبکہ ایک پولیس اہلکار بھی جان کی بازی ہار گیا اور 40 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

تحریک لبیک کے کارکنان کی جانب سے آج بھی ملک کے اہم شہروں میں دھرنے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اس دوران مختلف شہروں میں ٹی ایل پی کے کارکنان کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہیں۔

ٹی ایل پی ترجمان طیب رضوی کا کہنا تھا کہ جب تک علامہ سعد حسین رضوی خود حکم نہ دیں گے ہمارے کارکنان دھرنوں پر موجود رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک لبیک پاکستان کے مرحوم سربراہ خادم رضوی کی جانشینی پر تنازع

انہوں نے واضح کیا کہ جن مقامات سے انتظامیہ نے دھرنا ختم کرایا ہے وہاں کارکنان احتجاج کے لیے دوبارہ پہنچیں گے، ساتھ ہی ترجمان ٹی ایل پی نے دعویٰ کیا کہ ملک بھر میں تحریک لبیک کے 12 کارکنان کو مارا جاچکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں