اسرائیل نسلی، مذہبی بنیاد پر جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، ایچ آر ڈبلیو

اپ ڈیٹ 28 اپريل 2021
بیت المقدس میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی پولیس اور شہریوں کی جھڑپین جاری ہیں—فوٹو: رائٹز
بیت المقدس میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی پولیس اور شہریوں کی جھڑپین جاری ہیں—فوٹو: رائٹز

انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ(ایچ آر ڈبلیو) نے کہا ہے کہ اسرائیل اپنی حدود اور مقبوضہ علاقوں میں نسلی اور مذہبی بنیاد پر عربوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔

برطانونی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق ایچ آر ڈبلیو نے نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل کی پالیسی ہے کہ 'فلسطینیوں پر اسرائیلی یہودیوں کو برتری حاصل ہو' اور اس میں اپنے شہری بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کا رمضان میں فلسطینیوں پر اسرائیلی تشدد پر اظہار مذمت

نسلی اور مذہبی بنیاد پر تفریق کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کی وزارت خارجہ نے رپورٹ کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور انسانی حقوق کے ادارے پر الزامات عائد کیا۔

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ کا خیر مقدم کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو ہنگامی طور پر مداخلت کرنے ضرورت ہے اور یقینی بنایا جائے کہ ان کی ریاستیں، ادارے اور کمپنیاں کسی طرح بھی جنگی جرائم اورانسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث نہیں ہو رہی ہیں۔

خیال رہے کہ اسرائیل کی 93 لاکھ کی آبادی میں 20 فیصد عرب ہیں جبکہ 25 لاکھ فلسطینی اسرائیل کے مقبوضہ علاقے مغربی کنارے میں مقیم ہیں اور 3 لاکھ 50 ہزار اسرائیلیوں نے مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کر رکھا ہے۔

اسی طرح 19 لاکھ فلسطینی غزہ میں رہتے ہیں اور اقوام متحدہ اس علاقے کو بھی اسرائیل کے زیر تسلط تصور کرتا ہے۔

یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا تھا اور 2005 میں غزہ کو خالی کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب بھی اکثر سرحدوں پر قابض ہے اور راستے بھی بند ہیں۔

دوسری جانب مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس (یروشلم) میں تعمیرغیرقانونی بستیوں میں 6 لاکھ سے زائد یہودیوں کو بسایا گیا ہے، جس کو عالمی برادری بھی غیر قانونی تسلیم کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بیت المقدس میں اسرائیلی اور فلسطینی گروپس میں جھڑپیں، درجنوں زخمی

ہیومن رائٹس واچ نے 213 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا کہ آج یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل اکثریتی علاقوں میں قابض ہے اور محدود علاقے میں فلسطینیوں کو خود مختاری حاصل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ان تمام علاقوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اسرائیلی حکام کا نظریہ ہے کہ اسرائیلی یہودی کو برتری حاصل ہے اور فلسطینیوں کے خلاف امتیاز برتا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے ادارے نے کہا کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے قانون، پالیسیاں اور بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جغرافیائی سطح پر، سیاسی اختیارات اور زمین کے معاملات میں اسرائیلی یہودیوں کا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی شناخت کی بنیاد پر فلسطینیوں کو زبردستی اپنے احکامات کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ ناروا سلوک انسانیت کے خلاف انتہائی گھمبیر جرم ہے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں اسرائیلی پولیس کے ساتھ فلسطینیوں کی تازہ جھڑپوں کا آغاز 13 اپریل کو رمضان کے آغاز سے ہوا تھا جو تاحال جاری ہے۔

فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں تاریخی دمشق گیٹ کے باہر روایتی رمضان اجتماع سے روکنے کی کوشش کی۔

پولیس نے کہا کہ یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا تاکہ مسلمانوں کی بحفاظت نماز کے مقام پر پہنچنے کو یقینی بنایا جاسکے۔

یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان رمضان کے آغاز سے ہی رات کے اوقات میں جھڑپیں اور دیگر پرتشدد واقعات رونما ہوتے ہیں جن سے مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

22 اپریل کو یروشلم میں اسرائیلی اور فلسطینی گروپوں کے درمیان پرتشدد واقعات کے بعد اسرائیلی پولیس نے 50 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا تھا، جبکہ ان واقعات میں 100 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں