لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

جب پاکستان پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے والے جنرل ضیا کی جانب سے 1985ء میں منعقدہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو اس کا فائدہ جنرل ضیا کو ہی ہوا۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے بننے والی حکومت بلکہ پارلیمنٹ بھی ایسی تھی جو پیپلز پارٹی اور بھٹو کے حامیوں سے پاک تھی۔

1988ء میں ہونے والے انتخابات تک پیپلز پارٹی اپنی غلطی سے سبق سیکھ چکی تھی اور دوسری جانب اسے یہ فائدہ بھی حاصل تھا کہ جنرل ضیا کا کنٹرول اب ختم ہوچکا تھا۔ غلام اسحٰق خان اور اسلم بیگ، جن کی بطور وائس چیف آف آرمی اسٹاف تقرری پر جنرل ضیا بہت زیادہ خوش نہیں تھے، انہوں نے انتخابات کو شیڈول کے مطابق منعقد کروانے کا فیصلہ کیا اور یوں پیپلز پارٹی کی جیت کی راہ ہموار ہوئی۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے بھی سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔

اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر جنرل ضیا حیات ہوتے تو انتخابات کس طرح کے ہونے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہوتی یا پھر بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کو اقتدار منتقل نہ ہوتا۔ تاہم انتخابات کے انعقاد سے متعلق پختہ ارادے کے باوجود پیپلز پارٹی سے نفرت موجود تھی جس کے سبب اسلم بیگ نے آئی جے آئی کے قیام کے حوالے سے ہری جھنڈی دکھا دی تھی تاکہ پیپلز پارٹی پنجاب میں اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ انہوں نے غلام اسحٰق خان کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنایا کہ محترمہ خارجہ اور معاشی پالیسیوں میں مداخلت نہ کریں۔

مزید پڑھیے: واجد شمس الحسن کی یادداشتیں: وہ باتیں جو پہلے کبھی سامنے نہیں آئیں

پیپلز پارٹی پر اپنے عدم اعتماد کے باوجود غلام اسحٰق خان اور جنرل اسلم بیگ اتنے تذبذب کا شکار نہیں تھے جتنا جنرل ضیا ہوتے۔ اس کی وجہ یہ تھی جنرل ضیا کے برخلاف ان دونوں کے پیپلز پارٹی پر عدم اعتماد کی وجہ ذاتی نہیں تھی۔ بلآخر جنرل ضیا کو بھٹو کی پھانسی کے ذمے دار شخص کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

سادہ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیا کی وفات کے ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کا اقتدار کی جانب سفر شروع ہوگیا تھا۔

اگلی دہائی میں ایک اور آمر اور فوجی بغاوت نظر آئی۔ اس بار جنرل مشرف نے 1999ء میں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا اور 2002ء میں عام انتخابات کروائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد سے انہوں نے کئی مرتبہ پیپلز پارٹی سے مذاکرات کیے۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ انتخابات کے فوراً بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ آپ کو پیر سہاوا کے ریسٹورنٹ میں مشرف اور امین فہیم کی اتفاقاً ہونے والی ملاقات یاد ہوگی۔ بہرحال وہ معاملات زیادہ آگے نہیں بڑھے۔ جلد ہی پیٹریٹس مشرف سے آملے اور انہوں نے اپنی حکومت بنالی۔ تاہم بات جیت اور رابطے جاری رہے۔

گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی دفترِ خارجہ پہلی مرتبہ 2004ء میں بی بی سے رابطے میں آیا۔ ’مارک لیال گرانٹ مشرف کا پیغام لے کر بے نظیر کے پاس دبئی گئے۔ ان کے شوہر کو جیل سے رہا کردیا جائے گا۔ شاید اب انہیں مشرف کے ساتھ کام کرنے پر غور کرنا چاہیے‘۔

بی بی بہت ہی محتاط تھیں لیکن پھر مطالبات کی فہرست کا بھی تبادلہ ہوا۔ 2007ء تک امریکی بھی اس کھیل میں گود پڑے اور اسی سال موسمِ گرما میں بی بی اور مشرف کی دبئی میں ملاقات ہوئی۔ اسی سال اکتوبر میں محترمہ وطن واپس آگئیں۔

ان مذاکرات کے حوالے سے کئی یادداشتیں لکھی جاچکی ہیں اور ان میں اب کچھ بھی خفیہ نہیں ہے۔ لیکن میں جب بھی اس دور کے بارے میں پڑھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ آخر بے نظیر کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا اور نواز شریف کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟

مزید پڑھیے: معاملہ ان 35 صفحات کا، جنہیں بی بی محترمہ نے کتاب سے نکلوا دیا

اس کی ایک وجہ مجموعی ماحول بھی تھا۔ غیر ملکی افواج افغانستان میں افغان طالبان سے لڑ رہی تھیں جبکہ پاکستان کو عسکریت پسندی اور شدت پسندی کا سامنا تھا۔ مشرف کی حمایت کرنے والی مغربی طاقتیں پاکستان میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے خلاف لبرل اور ترقی پسند قوتوں کو آگے لانا چاہتی تھیں۔ اس پورے منظرنامے کے لحاظ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بجائے پیپلز پارٹی بالکل موزوں تھی۔

تاہم ایک دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ مشرف کے لیے ان لوگوں سے بات چیت کرنا مشکل تھا جنہیں انہوں نے خود اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ وہ 2002ء میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار تھے اور 2007ء میں جب مشرف بی بی کے ساتھ پاور شیئرنگ ڈیل کے حوالے سے بات جیت کر رہے تھے تو انہوں نے ستمبر میں نواز شریف کی واپسی کا پروگرام بھی خراب کردیا تھا۔

نواز شریف کو بے نظیر کی وطن واپسی کے بعد ہی واپس آنے کی اجازت دی گئی اور ایسا بھی اس وقت ممکن ہوا جب جنرل مشرف پر بے حد دباؤ ڈالا گیا۔ یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ نواز شریف مشرف کے ریٹائر ہونے سے دو دن قبل ہی وطن واپس آئے۔ مشرف کی جگہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ سنبھالا (اسلم بیگ کی طرح اکتوبر 2007ء میں اشفاق پرویز کیانی کو بھی وائس چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کیا گیا تھا)۔

شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ 2007ء میں مشرف اور بے نظیر کے درمیان معاملات کی نسبت نواز شریف سے مشرف کی مخاصمت زیادہ ذاتی نوعیت کی تھی۔ نواز شریف نے مشرف کو نکال باہر کرنے کی کوشش کی لیکن مشرف نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرکے قید کردیا اور پھر جلا وطن کردیا۔ بی بی کے ساتھ اس طرح کے کوئی معاملات نہیں رہے۔

مسلم لیگ (ن) کے لیے مشرف کی وہی حیثیت تھی جو بی بی کے لیے جنرل ضیا کی تھی۔ نواز شریف اور بے نظیر کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی کوششوں میں بڑی پیش رفت جنرل ضیا کی وفات اور مشرف کی آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کی صورت میں سامنے آئی۔ دونوں صورتوں میں فوج کی پالیسی صرف کمان کی تبدیلی سے ہی ممکن ہوئی۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو اسلام آباد سے نکالی گئی جماعت اس وقت تک واپس اقتدار میں نہیں آسکتی جب تک پنڈی کے رہائشی تبدیل نہ ہوجائیں۔

مزید پڑھیے: ’حالات کسی طوفان کے آنے کی خبر دے رہے ہیں‘

اگر اب تک قارئین اس سوچ میں گم ہیں کہ انہیں تاریخ کا سبق پڑھا کر کیوں بور کیا گیا تو آئیے اب حال پر نظر ڈالتے ہیں۔ اس وقت عمران خان ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور کچھ اس قسم کی افواہیں ہیں کہ شہباز شریف (جو مسلم لیگ (ن) کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکے ہیں) اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے ہی والے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اس وجہ سے مسلم لیگ (ن) اپنے مفاہمت پسند سربراہ کی قیادت میں اپنے بیانیے میں تبدیلی لائے گی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے بگڑے ہوئے تعلقات درست کرے گی۔ اس کے بعد ہوسکتا ہے کہ انہیں پنجاب یا مرکز میں اقتدار میں آنے دیا جائے تاکہ وہ پی ٹی آئی کی جانب سے بگاڑے ہوئے معاملات کو درست کرسکیں۔

نہ ہی میرے پاس پس پردہ ہونے والے معاملات تک رسائی ہے اور نہ ہی اہم عہدوں پر بیٹھے ذرائع مجھ سے بات کرتے ہیں اس وجہ سے مجھے نہیں معلوم کہ یہ صرف افواہیں ہی ہیں یا ان میں کوئی صداقت بھی ہے۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ اگر ذاتی دشمنی اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے تو کیا جن لوگوں نے اس بے دخلی کی حکمتِ عملی تیار کی تھی وہ اس کی وجوہات کو بھلا کر بے دخل کیے جانے والوں کو دوبارہ اقتدار سونپ دیں گے؟

لیکن پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ 1980ء اور 1990ء کی دہائی والا پاکستان نہیں ہے۔ طاقت کا توازن اب تبدیل ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان بہت پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔ کسی بھی بُرے فیصلے کو برداشت کرنا اب مشکل ہوگیا ہے اور شاید اب حالات اتنے تبدیل ہوچکے ہیں کہ افراد کی وہ حیثیت نہیں رہی جو کبھی ماضی میں ہوا کرتی تھی۔


یہ مضمون 25 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں