بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے میں دل کی شریانوں کے امراض، ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

خاندان کی تاریخ اور جینیات تو کسی فرد کے امراض قلب کے خطرے پر اثرانداز ہونے والے عوامل ہیں مگر یہ پہلی بار ہے جب سائنسدانوں نے بھائی بہنوں کی پیدائش کی ترتیب سے مرتب ہونے والے طبی اثرات کی جانچ پڑتال کی۔

سوئیڈن میں ہونے والی لیونڈ یویورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بہن بھائیوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی سب سے چھوٹی اولاد کے یے خطرہ بڑھتا جاتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر پہلوٹھی کی اولاد لڑکا ہو اور اس کے ساتھ صرف ایک بھائی یا بہن ہو تو اس کے لیے بعد کی زندگی میں امراض قلب کا خطرہ چھوٹے بہن بھائیوں کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

تاہم 3 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے کے لیے جان لیوا امراض کا خطرہ بڑے بچے کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ اگر سب سے چھوٹی اولاد لڑکی ہو تو اس میں دل کی شریانوں کے امراض کا خطرہ بڑے بہن یا بھائی کے مقابلے میں 2 فیصد جبکہ امراض قلب کا 14 فیصد تک زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

اسی طرح اگر سب سے چھوٹے بھائی کے 3 بہن بھائی ہوں تو اس میں یہ خطرہ بالترتیب 7 اور 23 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں سوئیڈن میں 1932 سے 1960 کے درمیان پیدا ہونے والے 25 لاکھ سے زیادہ افراد کے 1990 تک کے صحت کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

محققین نے کہا کہ یہ تحقیق مشاہداتی تھی اور وہ کسی وجہ کا براہ راست تعین نہیں کرسکتے۔

تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس کے پیچھے متعدد پیچیدہ عناصر کا جال ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گھر کی پہلی اولاد کو والدین کی زیادہ توجہ ملتی ہے، اس سے زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں، مگر اس سے چھوٹے بہن بھائیوں کی زبان سیکھنے کی صلاحیت زیادہ تیز ہوتی ہے کیونکہ انہیں بڑے بھائی بہنوں سے زیادہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلوٹھی کی اولاد ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کا رویہ چھوٹے بھائی بہنوں سے زیادہ زیادہ اچھا ہوگا اور بری چیزوں سے بچیں گے۔

تحققیق میں انہوں نے بہن بھائیوں کی مجموعی تعداد کے کسی فرد کی دل کی شریانوں کی صحت سے متعلق مسائل کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ جن لوگوں کے ایک یا 2 بھائی بہن ہوتے ہیں ان میں امراض قلب یا اس سے جڑے دیگر مسائل کا خطرہ کم ہوتا ہے تاہم 4 یا اس سے زیادہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے کے لیے یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے بی ایم جے میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں