نیب پراسیکیوٹر کی مدت ملازمت سے متعلق آرڈیننس پر قانونی بحث چھڑ گئی

اپ ڈیٹ 01 جون 2021
عدالت نے اس ریماکس کے ساتھ درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی کہ اس معاملے پر غور کی ضرورت ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
عدالت نے اس ریماکس کے ساتھ درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی کہ اس معاملے پر غور کی ضرورت ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: صدارتی آرڈیننس کے تحت قومی احتساب بیورو (نیب) کے اعلیٰ قانونی افسر کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق معاملے پر قانونی حلقوں میں بحث شروع ہوگئی کیونکہ معاملہ قانونی تھا جبکہ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کو فروری میں پہلے ہی دوبارہ تین سالہ مدت کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم نے رواں سال 15 فروری کو صدارتی آرڈیننس کے تحت سید اصغر حیدر کی نیب پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر مدت ملازمت میں توسیع کردی تھی۔

مزید پڑھیں: نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت اصغر حیدر دوبارہ پراسیکیوٹر جنرل تعینات

خیال رہے کہ ان کی مدت ملازمت جون میں ختم ہونے والی تھی لیکن مکمل قانونی تحفظ فراہم کرنے سے قبل اسے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سید اصغر حیدر کے تقرر کو آئین کے آرٹیکل 264 کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت آرڈیننس دینا چاہتی ہے جو ایک عارضی قانون سازی تھی جبکہ پارلیمنٹ ایک مستقل اثر رکھتا ہے۔

ایک درخواست بلوچستان ہائی کورٹ (بی ایچ سی) میں زیر التوا ہے جس میں صدارتی آرڈیننس پر کچھ قانونی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ اس آرڈیننس کو صدر عارف علوی نے ایسے وقت میں نافذ کیا تھا جب قومی اسمبلی میں اجلاس جاری تھا۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: احتجاج کے دوران نیب آرڈیننس میں مزید 120 روز کی توسیع

انہوں نے کہا کہ چونکہ کوئی عجلت نہیں تھی، لہٰذا آرڈیننس کا اعلان آئین کے آرٹیکل 89 کے منافی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ اس کے علاوہ یہ معاملہ وفاقی حکومت کے دائرہ کار سے متعلق ہے لیکن اس پر وفاقی کابینہ سے مشاورت نہیں کی گئی جو سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کے منافی ہے۔

عدالت نے اس ریماکس کے ساتھ درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی کہ ’اس معاملے پر غور کی ضرورت ہے‘۔

علاوہ ازیں عدالت نے اٹارنی جنرل، صوبے کے وکیل اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹسز جاری کردیے۔

نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزارت قانون نے عجلت اور جلد بازی میں سید اصغر حیدر کے دوبارہ تقرر کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ نئے تقرر کا معاملہ ہے کیونکہ قانون، میعاد مکمل ہونے کے بعد بھی پراسیکیوٹر جنرل کے تقرر پر پابندی عائد نہیں کرتا۔

مزید پڑھیں: نیب ترمیمی آرڈیننس زیر التوا کیسز پر لاگو نہیں ہوتا، پراسیکیوٹر

اس کے برعکس ایک ضلعی اور سیشن عدالت کے جج محمد بشیر کو 2012 سے اسلام آباد کے احتساب جج کی حیثیت سے کم از کم 4 مرتبہ دوبارہ نامزد کیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے دوبارہ تقرر کو نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدت ملازت کو توسیع دینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جو اکتوبر میں اپنی مدت ملازمت پوری کریں گے۔

قانونی برادری کے مطابق قومی احتساب آرڈیننس، پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع پر پابندی عائد کرتا ہے اور آرڈیننس کے سیکشن 8 (اے) (iii) میں واضح ہے کہ 'پراسیکیوٹر جنرل احتساب 3 سال کی (غیر توسیع) مدت کے لیے اپنے عہدے پر فائز ہوں گے'۔

سابق خصوصی پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے کہا کہ اس اقدام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے ذریعے نیب کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل کے تقرر کی وضاحت پہلے ہی نیب آرڈیننس میں کی گئی تھی لیکن حکومت نے عارضی قانون سازی کے ذریعے ان اختیارات کو چھیننے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے دوبارہ تقرر کے لیے یہ مناسب وقت نہیں تھا جب نیب موجودہ حکومت سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ ختم کرنے والا تھا اور ریفرنسز دائر کرنے کا عمل قریب تھا، اس طرح کا ’احسان‘ پراسیکیوٹر جنرل کے لیے قرض رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں