بھارت کو آزادی کے بعد سے اب تک کی بدترین کساد بازاری کا سامنا

اپ ڈیٹ 01 جون 2021
گزشتہ برس عالمی وبا کے باعث 23 کروڑ بھارتی شہری غربت کا شکار ہوئے— فائل فوٹو: شٹراسٹاک
گزشتہ برس عالمی وبا کے باعث 23 کروڑ بھارتی شہری غربت کا شکار ہوئے— فائل فوٹو: شٹراسٹاک

ممبئی: سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی معیشت سال 21-2020 میں 7.3 فیصد سکڑی ہے، یہ آزادی کے بعد سے اب تک کی بدترین کساد بازاری ہے کیونکہ کورونا وائرس کے لاک ڈاؤنز کی وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 1947 کے بعد سے پہلی 'تکنیکی کساد بازاری' اور مسلسل 2 سہ ماہیوں میں سکڑنے کے بعد جنوری یا مارچ یعنی مالی سال کی چوتھی سہ ماہی میں ایشیا کی تیسری بڑی معیشت نے 1.6 فیصد نمو کی۔

بنگلور کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ برس عالمی وبا کے باعث 23 کروڑ بھارتی شہری غربت کا شکار ہوئے، جس میں غریب ان افراد کو کہا گیا جو یومیہ 375 بھارتی روپے یا 5 ڈالر سے کم پر گزارا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی کے بعد پہلی مرتبہ بھارتی معیشت کساد بازاری میں داخل

سال 2020 کے اختتام پر پابندیوں میں نرمی سے سرگرمیوں کی عارضی بحالی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی تھی لیکن اپریل اور مئی میں کورونا کیسز یکدم بڑھنے کی وجہ سے یہ بہت کم عرصے ہی برقرار رہ سکی۔

بھارتی معیشت کی نگرانی کرنے والے سینٹر کے مطابق بھارت میں وبا کی دوسری لہر سے 8 ہفتوں میں ایک لاکھ 60 ہزار افراد لقمہ اجل بنے جس کی وجہ سے مزید لاک ڈاؤنز لگائے گئے اور صرف اپریل میں 73 لاکھ افراد ملازمت سے محروم ہوئے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے وبا کے ردِعمل میں اب تک کسی بڑے محرک اقدامات کے اعلان سے گریز کیا ہے۔

اس کا مطلب اس ملک کے لیے مزید مشکلات ہیں، جہاں 90 فیصد افرادی قوت غیر رسمی سیکٹر میں بغیر کسی سماجی تحفظ کے کام کرتی ہے اور لاکھوں افراد حکومت کے ایمرجنسی راشن پروگرام کے اہل بھی نہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت کورونا سے متاثرہ تیسرا بڑا ملک، ہلاکتوں کی تعداد 3 لاکھ سے متجاوز

دوسری جانب حکومت کو بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے جس میں نوبل انعام یافتہ معیشت دان ایستھر ڈوفلو اور ابھیجیت بینرجی نے بھی کمزور گھرانوں کو براہ راست نقد رقم دینے کے بجائے متاثرہ کاروبار کو قرضوں کی فراہمی پر زیادہ توجہ دینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایک حالیہ رپورٹ میں مالیاتی خدمات کی برطانوی کمپنی بارکلے نے بھارت میں وبا کی دوسری لہر کی لاگت 74 ارب ڈالر لگائی ہے جو مجموعی ملکی پیداوار کے 2.4 فیصد کے برابر ہے۔

دوسری جانب بھارت کے مرکزی بینک نے سالانہ معاشی نمو 10.5 فیصد اور عالمی مالیاتی فنڈ نے 12.5 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے جو بڑی معیشتوں میں سب سے تیز نمو ہے۔

مسلسل غیر یقینی

کوٹک مہیندرا بینک کی ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ 'ہمیں مالی سال 2022 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 10 فیصد رہنے کی توقع ہے۔

تاہم انہوں نے خبردار بھی کیا کہ 'تجزیہ کاروں کو ان امکانات کا بار بار جائزہ لینا پڑے گا کیونکہ یہ ویکسی نیشن کی رفتار اور پابندیوں پر منحصر ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: دریاؤں کے کنارے سے ریت میں دفن کی گئیں سیکڑوں لاشیں برآمد

انہوں نے کہا کہ رواں برس صورتحال اتنی خراب نہیں جتنی گزشتہ برس ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوئی تھی، لیکن مقامی پابندیوں کی وجہ سے معیشت پر دباؤ ہے اور یہ پابندیاں پورے سال جاری رہنے کا امکان ہے۔

بھارتی معیشت پہلے ہی سست روی کا شکار تھی لیکن عالمی وبا نے کئی برسوں میں حاصل ہونے والے ثمرات پر بھی اثر ڈالا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس 5 کروڑ بھارتی شہریوں کے غربت سے نکلنے کا تخمینہ تھا لیکن اس کے بجائے 20 فیصد غریب ترین گھرانے کاروبار بند ہونے کی وجہ سے اپریل اور مئی کے دوران اپنی مکمل آمدن سے ہی محروم ہوگئے۔

بھارت میں اب تک کورونا وائرس سے 2 کروڑ 80 لاکھ کیسز سامنے آچکے ہیں اور 21 کروڑ 30 لاکھ ویکسینز لگائی جاچکی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں