’جسٹس قاضی عیسیٰ کیس کا فیصلہ غلط، ناانصافی پر مبنی تھا‘

اپ ڈیٹ 11 جولائ 2021
حکومت نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ وہ نظرثانی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرے — فوٹو: بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ
حکومت نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ وہ نظرثانی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرے — فوٹو: بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں 26 اپریل کا اس کا اکثریتی فیصلہ صریحاً ناانصافی پر مبنی ہے اور عوام اور مفاد عامہ کے خلاف ہے جس سے عدالتی احتساب کا معیار متاثر ہوتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے عدالت عظمیٰ سے اس خلا کو پرُ کرنے کی استدعا کی ہے۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومتی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف 8 جولائی کو دائر کی گئی اپیل میں کہا گیا کہ ’سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ غلط، انصاف کی خلاف ورزی اور تعصب پر مبنی اور دوسری صورت میں غیر قانونی، غیر آئینی اور بغیر کسی دائرہ اختیار کے ہے'۔

مزیدپڑھیں: جسٹس عیسیٰ نظرِ ثانی کیس، بینچ میں اختلاف کرنے والے ججز کی عدم شمولیت پر سوالات

26 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے 6، 4 کی اکثریت سے گزشتہ برس 19 جون کے اپنے اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا جس میں ٹیکس حکام کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر 3 غیر ملکی جائیدادوں کی تفتیش کا حکم دیا گیا تھا۔

حکومت نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ وہ نظرثانی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرے۔

مذکورہ اپیل صدر سیکریٹری قانون کے توسط سے ڈاکٹر عارف علوی، وفاقی حکومت، وزیر اعظم عمران خان، وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور اثاثوں کی ریکوری یونٹ کے قانونی ماہر ضیا المصطفیٰ کی جانب سے دائر کی گئی۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ 26 اپریل کے اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے دروازے بند کردیے ہیں اور ریکارڈ میں آنے والے الزامات اور معلومات کے سلسلے میں جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کا احتساب عدالتی آزادی کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کیس: نظرثانی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا فیصلہ چیلنج

اپیل میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے معیار کو بھی کمزور کردیا ہے جبکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو صرف عدالتی احتساب سے بچنے کے لیے عدالتی آزادی کے نظریے کے پیچھے چھپنے کے لیے ایک ڈھال فراہم کی گئی ہے۔

اس میں کہا گیا کہ عدالتی آزادی کا تصور بنیادی طور پر انفرادی ججز کے مفاد کے لیے نہیں ہے بلکہ جج کے مفاد اور پورے معاشرے کے مفادات، حقوق اور فوائد کے حصول کے لیے ہے۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ اکثریتی فیصلہ اسلامی اور جدید قانونی اصول کے بھی خلاف ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز کے لیے ضابطہ اخلاق میں جو اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا تصور دیا گیا اس کے بھی خلاف ہے۔

اکثریتی فیصلے میں اس امر پر بھی زور نہیں ملتا کہ جدید قانونی اصول کی مکمل حمایت حاصل ہونے کے علاوہ اپنے مالی معاملات اور اثاثوں کی وضاحت کرنے کے ذمہ داران، ججز، قاضیوں اور سرکاری ملازمین کی ذمہ داری ہمارے دین اور شاندار ورثے سے واجب ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ نظر ثانی کیس: دلائل مختصر رکھنے کے معاملے پر سینئر ججز کے درمیان تلخ جملوں ‏کا تبادلہ

اپیل میں زور دیا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین، عہدیداران، ججز، قاضیوں کے قریبی رشتہ داروں مثلاً ان کی شریک حیات اور زیر کفالت بچوں کی بھی وضاحت کی ضرورت ہے۔

اپیل میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے میں جج کی اہلیہ اور بچوں (زیر کفالت یا زیر کفالت نہ ہوں) کے اثاثوں اور مالی معاملات کی جانچ پڑتال سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

حکومت نے اپیل میں دعویٰ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر لندن میں 3 جائیدادیں حاصل کرنے کے لیے ذرائع کے حوالے سے کوئی جواز پیش نہیں کر سکے ہیں۔

اپیل میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے غیر ملکی کرنسی بینک اکاؤنٹ سے کافی حد تک منسلک تھے، جس کے ذریعے لندن کی جائیدادوں کو مالی اعانت فراہم کی جاتی تھی۔

اس اپیل میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کے اس اعتراض پر بھی وضاحت کی گئی کہ املاک نظرثانی کی درخواست میں غیر مناسب زبان استعمال نہیں کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں