جسٹس عیسیٰ نظرِ ثانی کیس، بینچ میں اختلاف کرنے والے ججز کی عدم شمولیت پر سوالات

اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2020
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ چیف جسٹس کو مختصر بینچ تشکیل دینے کی کوئی صوابدید نہیں تھی—فائل فوٹو: آئی این پی
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ چیف جسٹس کو مختصر بینچ تشکیل دینے کی کوئی صوابدید نہیں تھی—فائل فوٹو: آئی این پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر لطیف آفریدی نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس میں اختلاف کرنے والے 3 ججز کو نکالنے پر بقیہ 6 ججز پر مشتمل بینچ کی سماعت ہمیشہ اس تاثر کو تقویت دے گی کہ اختلاف رائے رکھنے والی عدالتی آوازوں کو خاموش کیا جارہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں تحریری طور پر جمع کروائے گئے نوٹ میں ایس سی بی اے کے صدر نے دلیل دی کہ کم تعداد میں ججز کے سماعت کرنے سے یہ قدرتی طور پر شفافیت، غیرجانبداری پر سوال اٹھے گا چاہے وہ اچھے طریقے سے تشکیل دیا گیا ہو یا نامناسب طریقے سے بنایا گیا ہو۔

خیال رہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے 10 دسمبر کو سماعت ختم کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا لیکن انہوں نے لطیف آفریدی کو ان کا تحریری مؤقف جمع کروانے کی اجازت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ نظرثانی کیس: بینچ کی تشکیل کے معاملے پر فیصلہ محفوظ

اپنے نوٹ میں لطیف آفریدی نے 1924 بنام سسیکس جسٹسز کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ 'یہ محض معمولی اہمیت نہیں بلکہ بنیادی اہمیت کی بات ہے کہ نہ صرف انصاف کیا جائے بلکہ بغیر کسی شک و شبہے کے ہوتا نظر آئے'۔

لطیف آفریدی نے مؤقف اختیار کیا کہ 'یہ کہا جاسکتا ہے کہ جہاں تک نظر ثانی بینچ کے ججز کی تعداد کی بات ہے چیف جسٹس کو مختصر بینچ تشکیل دینے کی کوئی صوابدید نہیں تھی کیوں کہ فیصلہ/حکم نامہ اکثریت کا تھا'۔

مزید برآں جب وہی ججز دستیاب اور عدالت کے افعال مختلف نہ ہوں تو چیف جسٹس کو خاص صوابدید حاصل بھی نہیں ہے اور اصل بینچ کے کسی جج یا ججز کی موجودگی کی کوشش کے باوجود یقینی نہ بنائی جاسکے تو غیر معمولی طور پر دیگر ججز کو نظرِ ثانی بینچ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: نظرثانی کیس: اہلیہ جسٹس عیسیٰ کی چیف جسٹس سے متعلق بات پر عدالت برہم، حد میں رہنے کی تنبیہ

ان کا کہنا تھا کہ ہر کیس کی صورتحال مختلف ہوسکتی ہے اور موجودہ کیس میں ایک جج جو حال میں ہی ریٹائر ہوئے ہیں ان کے علاوہ تمام ججز موجود ہیں۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مزید کہنا تھا کہ 3 اختلاف کرنے والے ججز کو نظرِ ثانی بینچ کا حصہ نہ بنانا اصل میں درخواست گزار جج کے فیصلہ واپس ہونے یا کالعدم قرار دینے کے حق کا موقع دینے سے انکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر موجودہ کیس میں اصل بینچ تشکیل دیا جاتا ہے اور اکثریتی فیصلہ دینے والے 3 ججز اپنا نقطہ نظر درخواست گزار جج کے حق میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اصل حکم نامہ واپس ہوسکتا ہے لیکن بینچ کی موجودہ صورتحال میں ایسا ہونے کا کوئی موقع نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست

لطیف آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ یہاں یہ واضح کرنا بھی اہم ہے کہ نظام عدل کا تصور دو چیزوں پر ہے ایک عدلیہ کا تصور دوسرا قانون اور عدالتی کا منفی تصور کا نتیجہ عوام کا بھروسہ ختم ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے جس سے قانون کے منفی تصور کے مقابلے نظام انصاف کو کہیں زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 19 جون کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

تاہم عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔

تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی گئی، جسٹس قاضی فائز

10 نومبر کو سرینا عیسیٰ عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار کے ساتھ درخواست جمع کروانے کے لیے پیش ہوئی تھی اور انہوں نے درخواست کی تھی کہ ان تمام ججز کو 10 رکنی فل کورٹ میں شامل کیا جائے جنہوں نے صدارتی ریفرنس کے خلاف ان کے شوہر (جسٹس عیسیٰ) کی درخواست پر فیصلہ کیا تھا اور 19 جون کا مختصر حکم جاری کیا تھا۔

یہی نہیں بلکہ دسمبر کے اوائل میں سرینا عیسیٰ نے عدالت میں ایک درخواست جمع کروائی تھی جس میں انہوں نے پہلے والی نظرثانی درخواست کو منظور کرنے کیا استدعا سمیت زور دیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کیس میں 7 ججز کے 19 جون کے مختصر حکم سمیت 23 اکتوبر کے تفصیلی فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔

علاوہ ازیں 5 دسمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اضافی درخواست داخل کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی۔

ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں