گیس کمپنیوں کی اجارہ داری ختم ہوتے ہی اوگرا نے پالیسی ہدایات طلب کرلیں

اپ ڈیٹ 09 اگست 2021
ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کی یہ اجارہ داری تقریباً 10 سال قبل ختم ہوئی تھی — فائل فوٹو: رائٹرز
ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کی یہ اجارہ داری تقریباً 10 سال قبل ختم ہوئی تھی — فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے عوامی نمائندوں اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ دونوں گیس کمپنیوں سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) کی اجارہ داری ختم ہونے کے پیش نظر مسابقت پر مبنی ترقی، قومی گرڈ کی توسیع اور نئے رہائشی گیس کنیکشنز کے حوالے سے پالیسی ہدایات پیش کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوگرا نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی (پیٹرولیم ڈویژن) کو لکھا کہ 'براہ کرم تجویز دی جائے کہ فرنچائز علاقوں میں کام کرنے کے لیے گیس کمپنیوں کی اجارہ داری اب قابل عمل نہیں ہے اور اس لیے نئی ترقیاتی اسکیمیں مسابقتی بنیادوں پر دی جائیں گی'۔

ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کی یہ اجارہ داری تقریباً 10 سال قبل ختم ہوئی تھی۔

خط میں، جو اٹارنی جنرل، وزارت توانائی، قانون و انصاف، منصوبہ بندی اور ترقی، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور متعدد اسٹیک ہولڈرز کو بھی بھیجا گیا ہے، اوگرا نے مطالبہ کیا کہ گیس کمپنیوں کو پہلے سے منظور شدہ نیٹ ورک کی تکمیل کو یقینی بنانے کا پابند کیا جائے، ڈیولپمنٹ پلان اور نئے گیس کنیکشن پہلے ہی صارفین کی جانب سے ٹیرف کے ذریعے فنڈ کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: اوگرا کو نئے گیس کنیکشنز کی اجازت دینے کیلئے دباؤ کا سامنا

اس کے علاوہ ریگولیٹر نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے اپنی ذیلی کمیٹی کو اختیار دیا تھا کہ وہ گیس کی نئی اسکیموں اور گیس کی ترقی کی اسکیم کے تحت آنے والے فی گاؤں یا نئے علاقے کے 300 درخواستوں کی منظوری دے سکتے ہیں، جو 13 اپریل 2021 کے بعد نکالی گئیں گزشتہ اسکیموں کے بعد گیس یوٹیلیٹی کے پاس دستیاب سیونگز کے خلاف ہے۔

گزشتہ پانچ سالوں کے ریکارڈ کے ساتھ اوگرا نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے چیئرمین کو رپورٹ کیا کہ ترقیاتی منصوبے اور نئے گیس کنیکشن کے لحاظ سے ہدف کے مقابلے میں ایس این جی پی ایل کی کارکردگی بالترتیب 67 فیصد اور 77 فیصد رہی۔

اوگرا نے وضاحت کی کہ اسے قانون کی طرف سے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ یہ ہر سال صارفین کے لیے مقرر کردہ قیمتوں پر پہنچنے کے لیے سالانہ آمدنی کی ضرورت کا تعین کرنے کا پابند ہے جو کمپنی کے آپریٹنگ اخراجات، اس کے اثاثوں کے ریٹرنز وغیرہ کا مجموعہ ہے۔

ریگولیٹر نے کہا کہ اس کی قانونی ذمہ داری تھی کہ وہ کمپنیوں کے ہر دعوے کو احتیاط اور عقلیت کے ساتھ صرف جائز اخراجات کی اجازت دے۔

اوگرا نے کہا کہ ایس این جی پی ایل یہ تاثر دے رہا ہے کہ جب تک ریگولیٹر کی جانب سے اگلے سال کا بجٹ منظور نہیں کیا جاتا، گیس کے نئے اور جاری منصوبوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا، 'حقیقت میں گیس کمپنیوں کا بجٹ اور حلقوں کے انفرادی منصوبوں کی ترجیح متعلقہ مینجمنٹ اور بورڈز (گیس کمپنیوں کے ڈائریکٹرز) کی طرف سے طے کی جاتی ہے، اس لیے اس کے لیے تمام منظوریاں اور فنڈز ملنے کے بعد منصوبوں کو بیچ میں چھوڑنے کا قطعی کوئی جواز نہیں ہے'۔

مزید برآں ریگولیٹر نے اصرار کیا کہ گیس یوٹیلیٹی کمپنیاں عملدرآمد کرنے والی ایجنسیاں ہیں جو گیس کی تقسیم کی ترقیاتی اسکیموں کی ذمہ دار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرولیم بحران رپورٹ: کمیشن کی اوگرا تحلیل کرنے کی سفارش

اس طرح کی اسکیموں کی منظوری کے مروجہ عمل میں گیس کمپنیوں کی جانب سے وزارت توانائی کو تجویز پیش کرنا اور بعد میں اسٹیئرنگ کمیٹی برائے پائیدار ترقیاتی اہداف پروگرام (ایس اے پی) کی منظوری شامل ہے۔

ریگولیٹر نے کہا کہ 'اوگرا کے سائے تلے منظوری مجموعی بجٹ والے سرمائے کے اخراجات تک محدود ہے جس میں کسی انفرادی اسکیموں، جس پر عملدرآمد کیا جائے، شامل نہیں ہے۔

اوگرا نے کہا کہ وہ ایس این جی پی ایل کی جانب سے 100 فیصد تقسیم کی توسیع کے منصوبوں کی اجازت دے رہی ہے جس کی کامیابی مالی سال 16-2015 اور مالی سال 17-2016 میں بالترتیب 48 فیصد اور 59 فیصد رہی جو مالی سال 18-2017 میں 103 فیصد تک بڑھ گئی تھی۔

پی ٹی آئی حکومت کے اگلے دو مالی سالوں میں کمپنی نے ایک مرتبہ پھر اس میں کمی کی اور 74 فیصد اور 48 فیصد اہداف پورے کیے۔

دوسری جانب گیس سیکٹر کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک اور نئے کنیکشن کی تکمیل کی شرح متوقع مالی ضروریات (ای آر آر) پر فیصلے جاری کرنے میں تاخیر سے سامنے آئے۔

مزید پڑھیں: اسٹیک ہولڈرز کی اوگرا سے ایل این جی ٹرمینلز کے لیے تعمیراتی لائسنس جاری کرنے کی اپیل

انہوں نے کہا کہ اوگرا کے فیصلوں کی ٹائم لائن کا مقصد آئندہ مالی سال کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے یوٹیلیٹی کمپنیوں کو مناسب خریداری اور آپریشن کا وقت دینا ہے۔

تاہم بعض صورتوں میں ای آر آر کے بارے میں ریگولیٹر کے فیصلے مالی سال کے آغاز ہونے سے 40 روز پہلے کے بجائے متعلقہ مالی سال کے دسمبر کے آخر میں آئے ہیں جس کی وجہ سے کمپنیوں کو خریداری کے توسیع کے عمل میں جانے اور آپریشنل اہداف کو پورا کرنے کے لیے بہت کم وقت ملتا ہے۔

عہدیدار نے وضاحت کی کہ حالیہ دنوں میں کووڈ 19 کی وجہ سے پیدا رکاوٹوں کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوئی ہے اور ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کا ای آر آر ابھی اگست میں آنا باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گیس کمپنیوں کو صرف اس وقت ریٹرن ملتا ہے جب پائپ لائنز اور نئے کنیکشن کا آغاز ہو، نہ کہ ان پر کام جاری ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں ایس این جی پی ایل گزشتہ پانچ سالوں میں نظرثانی شدہ فروخت کی قیمتوں کے ذریعے منافع کی وصولی نہیں کر سکا اور اسے آمدنی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ گیس کمپنیاں مجبور تھیں کہ وہ مقامی گیس زیادہ مقررہ قیمت پر خریدیں اور اسے کم قیمت پر فروخت کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں