مقبوضہ کشمیر میں گرفتاریوں اور دھمکیوں کے باعث کشمیری اختلاف رائے سے خوفزدہ

اپ ڈیٹ 21 اگست 2021
بھارت کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں 5 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر چکا ہے—فائل  فوٹو: اے ایف پی
بھارت کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں 5 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر چکا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں عوامی احتجاجی لگ بھگ ہفتہ وار ہوتا تھا لیکن نئی دہلی کی جانب سے 5 اگست، 2019 کے اقدام کے بعد مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے لاٹھی چارج، فون چھیننے، گرفتاریوں اور دھمکیوں نے بہت سے لوگوں کو اختلاف رائے سے خوفزدہ کردیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق خطے کی جزوی خودمختاری کے خاتمے سے ایک ہفتہ قبل مقامی سطح پر ردعمل کو روکنے میں مدد کے لیے بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔

اس دوران گرفتار کیے گئے ہزاروں افراد میں 'رفیق ' نامی نوجوان بھی شامل تھا جسے پہلے ہی حراست میں لے لیا گیا تھا۔

رفیق کا ماننا ہے کہ انہیں گرفتار کیا گیا کیونکہ ماضی میں انہوں نے 'ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا'۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں غیرملکی سفارت کاروں کے دورے پر مکمل ہڑتال

جیل میں ایک مشکل سال گزارنے کے بعد، 26 سالہ نوجوان جو اپنا اصلی نام بتانے سے بہت خوفزدہ تھا، ان کا کہنا تھا کہ وہ 'ٹوٹ ' گئے ہیں۔

دیگر ایک درجن کشمیریوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے ایف پی کو بتایا کہ ان سمیت دیگر 30 نوجوانوں کو فوجی طیارے میں سوار کرکے ان کے گھر سے سینکڑوں میل کے فاصلے پر جیل میں لے جایا گیا تھا جہاں ان کے ساتھ ' بدسلوکی کی گئی اور انہیں ڈرایا گیا تھا'۔

انہوں نے کہا کہ 'میرے سیل میں 6 ماہ تک ایک تیز روشنی کو رات بھر آن رکھا جاتا تھا، یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ میں زندہ باہر آؤں گا'۔

ایک سال بعد آخر کار انہیں رہا کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دیگر درجنوں کشمیری بھارت کی بدنام زمانہ جیلوں میں قید ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کے یوم جمہوریہ پر کشمیریوں کا یوم سیاہ، دنیا بھر میں احتجاج

5 بچوں کی ماں تسلیمہ نے اپنے شوہر گلزار احمد بھٹ کو نہیں دیکھا، جو پہلے ایک گروہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن 2 سال بعد 2016 اسے چھوڑ دیا تھا۔

ابتدائی طور پر جب پولیس اور فوجیوں نے ان کے گھر پر چھاپا مارا تو گلزار احمد بھٹ باہر تھے، چنانچہ پولیس نے ان کے 23 سالہ بھتیجے کو اس وقت تک قید رکھا تھا جب تک کہ اس کے چچا نے خود کو ان کے حوالے نہ کیا۔

چھوٹے بچے کو گود میں بٹھائے روتی ہوئی تسلیمہ نے کہا کہ 'میں اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے کام کی تقریباً بھیک مانگتی ہوں'۔

'اختلاف خاموش کرانے کا آلہ'

بھارت کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں 5 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر چکا ہے۔

خطے کے مغربی علاقے کو کنٹرول کرنے والے فوجی، بھارت سے آزادی یا پاکستان کے ساتھ انضمام کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اگست 2019 میں آئین کے ایک حصے کو ختم کردیا تھا جو علاقے کی جزوی خود مختاری کی ضمانت دیتا ہے، انہوں نے کہا تھا کہ وہ آخر کار امن چاہتے تھے۔

کشمریوں کے پاس اب مقامی سطح پر منتخب حکومت نہیں ہے اور ان پر نئی دہلی کے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر کی حکومت ہے۔

ایک قانون سازی کے تحت نئے قوانین کا اطلاق کیا گیا ہے اور دیگر کو ختم کیا جاتا ہے اور اب فیصلہ کن اہم عہدوں پر شاید ہی کوئی کشمیری پولیس افسران یا بیوروکریٹس ہوں۔

مزید پڑھیں: 5 اگست 2019 سے 5 فروری 2020 تک مقبوضہ کشمیر کی آپ بیتی

علاوہ ازیں زمین کی ملکیت کے قوانین میں تبدیلیوں نے 'آبادکار نوآبادیات' کے الزامات کو جنم دیا ہے جس کا مقصد مسلم اکثریتی علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے۔

نئی دہلی میں موجود بھارتی وزارت داخلہ اور کشمیر میں بھارتی حکومت کے ترجمان نے اس مضمون پر تبصرہ کرنے کے لیے اے ایف پی کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

2 سال قبل سرکاری طور پر 5 ہزار کو گرفتار کیا گیا تھا اور اور اس کے بعد سے درجنوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمے درج کیا جاتا رہا ہے۔

یہ قانون کسی چارج یا ٹرائل کے بغیر 2 سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس سے تعلق رکھنے والی جولیٹ روسیلوٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'زیادہ تر کیسز میں، روک تھام کے لیے کی جانے والی حراست ایک ایسے آلے سے کہیں زیادہ ہے جسے اختلاف رائے کو خاموش کرانے اور خودساختہ سینسر شپ کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے'۔

بھارت نے مبینہ طور پر دہشت گردی کے خلاف قانون سازی-غیر قانونی سرگرمیوں کے (روک تھام) کے ایکٹ کا بھی بھرپور استعمال کیا ہے، جو مؤثر طریقے سے لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے غیر معینہ مدت تک قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

'یکجہتی اب ممکن نہیں'

بھارتی حکام نے سول سوسائٹی کے گروہوں، صحافیوں اور اخبارات سے وابستہ افراد کے گھروں، دفاتر اور احاطوں پر چھاپے مارے، فون اور لیپ ٹاپ ضبط کیے ہیں۔

ایک گروپ جس پر چھاپا مارا گیا تھا وہ جموں کشمیر اتحاد برائے سول سوسائٹی کا تھا۔

گروپ کے سربراہ پرویز امروز نے کہا کہ 'تمام ریاستی ادارے جنہیں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے علمبردار سمجھا جاتا تھا، انہیں بھی اب خاموش کرادیا گیا ہے، غیر فعال کر دیا گیا ہے یا دھمکی دی گئی ہے'۔

مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے، فوٹوگرافرز پر حملہ کیا گیا اور غیر ملکی رپورٹرز کو مؤثر طریقے سے علاقے میں داخلے سے روکا گیا۔

جب دکانداروں نے رواں ماہ احتجاج میں شٹ ڈاؤن کی کوشش کی تو پولیس نے تالے توڑ کر انہیں کھولنے پر مجبور کیا۔

نوجوان کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور بعض اوقات اگر ان کے فون میں واٹس ایپ یا سگنل جیسی انکرپٹڈ ایپس انسٹال ہوتی ہیں تو انہیں چیک پوائنٹس پر مارا پیٹا جاتا ہے۔

ایک درجن سے زائد سرکاری ملازمین کو حال ہی میں 'ملک مخالف سرگرمیوں' یا سوشل میڈیا پر حکومت پر تنقید کرنے کی وجہ سے برطرف کیا گیا ہے۔

گزشتہ ماہ پولیس کو کہا گیا تھا کہ وہ سرکاری ملازمتوں اور پاسپورٹس کے لیے ان افراد کی سیکورٹی کلیئرنس مسترد کریں جو ماضی میں مظاہروں میں ملوث رہے، پتھر پھینکے یا 'ریاست کی سلامتی' کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث رہے۔

تاہم کشمیریوں کو اب بھی تشدد کا سامنا رہتا ہے۔

رواں ماہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت کے ایک مقامی عہدیدار اکو ان کی بیوی کے ساتھ قتل کردیا گیا تھا ، جبکہ 90 افراد، جن پر شبہ ہے کہ وہ احتجاج میں شریک تھے، اس سال اب تک ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

جب وہاں ہفتہ وار احتجاج ہوتا تھا، جس کا جواب پولیس اکثر آنسو گیس اور پیلیٹ گنز برسا کردیتی تھی اب وہ تیزی سے ماضی کا قصہ بن رہے ہیں۔

وہ لوگ جن کے رشتہ داروں اور یہاں تک کے پڑوسیوں نے ماضی میں احتجاج کیا ہے یا صرف ایسا کرنے کا شبہ ہے ان پر پولیس کی طرف سے باقاعدہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ تحریری وعدوں کے ذریعے مظاہرے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔

ایک نوجوان جس نے ایک سال جیل میں گزارا اور جس کے والد کو بھی اییسے ہی حلف نامے پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا گیا تھا، نے کہا کہ 'میں اب کچھ کہنے کے لیے اپنا منہ کھولنے سے پہلے اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس نے ہمیں الگ کر دیا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی اب ممکن نہیں ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں