بارشوں کی کمی سے ڈیمز نہ بھرنے کے باعث فصلوں کو خطرات لاحق

اپ ڈیٹ 24 اگست 2021
محکمہ موسمیات کے مطابق اگست کے ابتدائی 3ہفتوں میں 58 فیصد کم بارشیں ہوئیں—فائل فوٹو: اے پی پی
محکمہ موسمیات کے مطابق اگست کے ابتدائی 3ہفتوں میں 58 فیصد کم بارشیں ہوئیں—فائل فوٹو: اے پی پی

لاہور: گزشتہ 7 ہفتوں کے دوران اوسط سے کم بارشوں، آبپاشی کی بڑھتی ہوئی طلب اور پہاڑی علاقوں میں درجہ حرارت کی کمی کے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کو خدشہ ہے کہ شاید رواں سال دونوں ڈیمز نہ بھر سکیں جس سے ربیع کی فصل کو سنگین بحران کا سامنا ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں محکمہ موسمیات کے اعدادو شمار کے حساب سے بتایا گیا کہ اگست کے ابتدائی 3 ہفتوں میں 58 فیصد کم بارشیں ہوئیں اور اگر یکم جولائی تا 23 اگست تک گزشتہ 7 ہفتوں کی اوسط دیکھی جائے تو ملک کو 22 فیصد بارش کی کمی کا سامنا ہے۔

گزشتہ 7 ہفتوں میں سندھ کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا رہا جہاں بارشیں 65 فیصد، گلگت بلتستان میں 34 فیصد، آزاد کشمیر میں 28 فیصد اور پنجاب میں 25 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں:‘سندھ کو 60 برس میں پانی کی بدترین قلت کا سامنا ہے’

پانی کی یہ قلت قدرتی طورپر پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھاتی ہے جن کے مکمل نہ بھرنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

ارسا کے ترجمان خالد ادریس رانا نے کہا کہ اگر تربیلا ڈیم نہ بھرا، جس کا اب واضح امکان ہے، تو ایسا ڈیم کی 44 سالہ تاریخ میں تیسری مرتبہ ہوگا۔

ارسا کو سنگین صورتحال کا سامنا ہے، اس نے خود یہ حقیقت بتائی کہ رواں سیزن کے دوران منگلا ڈیم مکمل بھرا نہیں رہے گا لیکن تربیلا جھیل کو بھی اسی خطرے کا سامنا ہے جو تباہ کن منظرنامہ پیش کرتا ہے۔

پانی پر آنے والا دباؤ قومی سطح پر پانی کی تقسیم سے واضح ہے ارسا پہلے ہی 82-1977 تک استعمال ہونے والے اصل اوسط نظام پر واپس آچکی ہے، جسے پانی کے معاہدے میں 14-بی کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: ارسا نے ملک میں پانی کی صورتحال مزید خراب ہونے کا انتباہ دے دیا

اتھارٹی کو دہری مشکلات کا سامنا ہے ایک بارشوں میں غیر معمولی کمی دوسرا دریائی ماخذ علاقوں میں درجہ حرارت کم ہونا، اوسطاً پاکستان یکم اپریل سے 20 اگست تک 8 کروڑ 30 لاکھ ایکٹر فٹ پانی حاصل کرتا ہے لیکن رواں برس صرف 72 ایم اے ایف حاصل ہوئے۔

محکمہ ذراعت کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ پنجاب کا خیال یہ ہے کہ جہاں تک فصلوں کا تعلق ہے وہ ابھی تک کسی دباؤ میں نہیں ہے جس کی بڑی وجہ بارش کا انداز ہے کیوں کہ صوبے کے بالائی علاقوں میں اچھی بارشیں ہوئی تھیں جہاں چاول کی فصل لگائی جاتی ہے جس سے اس کی ضرورت پوری ہوگئی۔

تاہم جنوبی علاقوں میں بارشوں کی کمی کے باعث اوسط نقصانات میں اضافہ ہوا جہاں زیادہ بارشیں صرف موسم کو مرطوب کر سکتی تھیں جو کیڑوں کے حملے کے لیے سازگار اور فصل کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔

پانی کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے پہلے ہی صوبائی عدم اطمینان کو جنم دیا ہے اور سندھ نے پیرا -2 کے تحت تقسیم کا مطالبہ کیا ہے جس کا مطلب ڈیموں میں 30 سے 40 لاکھ ایکڑ فٹ کے درمیان پانی کی مزید کمی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں