حیدرآباد: انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے پنجاب اور سندھ کے لیے 32 فیصد پانی کی کمی کی فراہمی سے متعلق فیصلے کے بعد گڈو بیراج کے چیف انجینئر نے کاشتکاروں کو تجویز دی ہے کہ وہ مئی اور جون میں دھان کی بوائی نہ کریں کیونکہ بیراج کو ’60 برس میں پانی کی بدترین قلت‘ کا سامنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ کاشت کار جولائی میں نرسریوں کی تیاری کرسکتے ہیں جب تک پانی کے بہاؤ میں بہتری کی توقع ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب اور سندھ میں پانی کی مزید قلت پیدا ہوگئی

سندھ کے تینوں بیراجوں میں پانی کی قلت جاری ہے تاہم کوٹری بیراج میں 50.44 کی قلت کے بعد صورتحال زیادہ سنگین ہے۔

سندھ کے تین بیراج آج (29 مئی) تک 36.94 فیصد پانی کی قلت کا سامنا کررہے ہیں جو کپاس کی فصل کے لیے مشکلات کا باعث ہے اور ابتدائی خریف کے لیے پانی دستیاب ہوسکتا ہے۔

ارسا کے سندھ کے رکن زاہد جونیجو نے کہا ہے کہ سب کو اُمید ہے کہ بالائی علاقوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے پیش نظر پانی کی صورتحال میں بہتری آئے گی جس سے پانی کے بہاؤ میں بہتری واقع ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن فی الحال جہاں کپاس کی کاشت ہوتی ہے یا دھان کی نرسری تیار کی جاتی ہیں پانی کی قلت کی وجہ سے فصلیں متاثر ہوسکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'سندھ میں مجموعی طور پر پانی کی قلت 37 فیصد ہوگئی ہے'

زاہد جونیجو کے مطابق جہاں تک پانی کی تقسیم کا تعلق ہے تو سندھ نے ہمیشہ ایک نکتے کو اہمیت دی ہے کہ ’ہمیں پانی کی تقسیم کے معاہدے 1991 کے مطابق پانی فراہم کیا جائے، ہم تین درجے کا فارمولا قبول نہیں کرتے جو تنازع کی جڑ ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ صورتحال اتنی خراب ہے کہ لوگ پینے کے پانی کے لیے رونے لگے ہیں آب پاشی کا معاملہ تو بہت دور کی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہر مقام پر پانی کے بہاؤ کی جانچ کرتے ہیں، سندھ اور پنجاب کی رضامندی سے اب کمیٹی کی تشکیل ممکن ہے جسے پانی کے اخراج پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔

زاہد جونیجو نے ارسا اور پنجاب کے ان دعوؤں کو مسترد کردیا جس کے تحت کوٹری کے بہاو کو ’پانی کی بربادی‘ قرار دیا گیا۔

مزید پڑھیں: صوبائی وزیر نے سندھ میں پانی کی قلت سے خبردار کردیا

انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس قابل اجازت نقصان 35 فیصد تھا لیکن اس میں 30 فیصد پر نظرثانی کی گئی جو ایک مرتبہ پھر سندھ کے لیے نقصان کا باعث ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ سندھ کا مؤقف ہے کہ تونسہ اور گڈو کے مابین ٹرانزٹ نقصانات غیر معمولی حد سے زیادہ ہیں۔

زاہد جونیجو نے بتایا کہ دریائے سندھ گڈو بیراج تک پہنچتا ہے اور اس کے نتیجے میں 100 میل کا فاصلہ 300 میل کا فاصلہ بن جاتا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ کے لیے جاری پانی کے بہاؤ میں سے پنجاب کے ندی نالے میں تقریباً 50 ہزار ایکٹر اراضی سیراب ہو رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں