امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں پھنسے امریکی شہریوں اور دیگر کو نکالنے میں مدد کرنے پر دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔

میری لینڈ سے کراچی میں پیدا ہونے والے ڈیموکریٹک سینیٹر کرس وان ہولن نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ جب تک آخری امریکی فوجی افغانستان سے نہ نکل جائے، میں تمام امریکیوں کو وطن واپس لانے اور اپنے افغان شراکت داروں کو پناہ فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔

مزید پڑھیں: جوبائیڈن کی پاکستان سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ حیرت انگیز ہے، امریکی سینیٹر

انہوں نے ’قطر، متحدہ عرب امارات، پاکستان، کویت اور دیگر بہت سے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے انخلا کی کوششوں میں ان کی مد کی'۔

علاوہ ازیں امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انہوں نے امریکی سینیٹر کرس وان ہولن کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت کی ہے۔

اسد مجید خان نے بتایا کہ انہوں نے امریکی سینیٹر کو ’افغانستان سے امریکی، افغان اور دیگر شہریوں کے انخلا کے لیے پاکستان کی حمایت‘ پر بریفنگ دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے افغانستان میں ایک جامع سیاسی تصفیہ حاصل کرنے کی فوری ضرورت پر پاکستان کا نقطہ نظر شیئر کیا۔

گزشتہ ہفتے سینئر امریکی عہدیدار لنزے گراہم نے بھی جنگ زدہ ملک میں انخلا کی کوششوں میں پاکستان کی مدد کرنے پر تعریف کی تھی اور اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان کو افغانستان کے تنازع کے ’پائیدار حل‘ کا حصہ بنانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا پاکستان، دیگر ہمسایہ ممالک کیلئے ایک امتحان

امریکی سینیٹر نے کہا تھا کہ افغانستان کے کسی بھی پائیدار حل میں پاکستان شامل ہونا چاہیے اور اس خطے کو ’انتہائی پیچیدہ‘ اور موجودہ دور کو ’خطرناک‘ قرار دیا۔

لنزے گراہم نے کہا کہ ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک ہے۔

انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ (میں) پاکستانی شہریوں کی امریکی شہریوں، ہمارے اتحادیوں اور دیگر اقوام کے انخلا میں مدد کرنے کی کوششوں کی بہت تعریف کرتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: 'امریکیوں کی ایک اور نسل کو جنگ کیلئے افغانستان نہیں بھیجوں گا'

کچھ دن پہلے امریکا نے پاکستان اور نصف درجن دیگر ممالک سے رابطہ کیا تھا جن کا خیال ہے کہ وہ افغانستان کی صورتحال پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

ان کے دفتر نے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان، چین، روس، بھارت اور ترکی کے وزرائے خارجہ اور برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ اعلیٰ سفارتکاروں میں شامل تھے۔

بعد میں انہوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کو فون کیا تھا تاکہ وہ افغانستان اور وہاں کی صورت حال پر تبادلہ خیال کر سکیں۔

قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے 26 اگست کو بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ امریکا اور پاکستان افغانستان میں مل کر کام کرنے میں مشترکہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں