پی ٹی آئی کا کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات کے دوران آرمی کی تعیناتی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2021
دو روز قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کی کوشش پر احتجاج کی دھمکی دی تھی — فائل فوٹو / اے ایف پی
دو روز قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کی کوشش پر احتجاج کی دھمکی دی تھی — فائل فوٹو / اے ایف پی

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 12 ستمبر کو ملک بھر کے 42 کنٹونمنٹ بورڈز میں ہونے والے انتخابات میں الیکشن کمیشن سے 'امن و امان' برقرار رکھنے اور 'شفافیت یقینی' بنانے کے لیے پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر فوجی اہلکاروں کو تعینات کرنے کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاک فوج کو تعینات کرنے کا مطالبہ پی ٹی آئی کے چیف آرگنائزر سینیٹر سیف اللہ خان نیازی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا سے خط کے ذریعے کیا گیا۔

دو روز قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کی کوشش پر احتجاج کی دھمکی دی تھی۔

خط کے ذریعے سیف اللہ نیازی نے چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کیا کہ بیشتر پی ٹی آئی چیپٹرز نے انہیں کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کی الیکشن مہم میں ممکنہ طور پر ہنگامہ آرائی کا ماحول بنانے کا بتایا ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے میڈیا کو جاری خط میں لکھا گیا ہے کہ 'ماضی کے ریکارڈز کے مطابق پاکستانی مسلح افواج کی سیکیورٹی کے بغیر اس طرح کے انتخابات بڑے شہروں جیسے کراچی اور لاہور میں تسلی بخش نہیں رہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات: مسلم لیگ (ن) کے پی ٹی آئی پر سنگین الزامات

چیف آرگنائزر نے لکھا کہ 'الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (ای وی ایمز) کی غیر موجودگی میں انتخابی دھوکہ دہی اور مقامی سیاسی قوتوں کے ذریعے دھونس اور دھمکی کے طریقوں کے لیے راستے کھلے ہیں جس میں جعلی ووٹ ڈالنے اور نتائج غلط بنانا بھی شامل ہے'۔

انہوں نے لکھا کہ 'اس لیے آزاد اور شفاف انتخابات کے لیے ہماری رائے ہے کہ پولنگ اسٹیشنز کے اندر و باہر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آرمی سے معاونت کی درخواست کی جائے'۔

اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے آرمی کی تعیناتی کی پی ٹی آئی کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 2018 کے عام انتخابات کا تجربہ ایک ہی مرتبہ کے لیے کافی تھا۔

اس پیشرفت سے متعلق مؤقف کے لیے رابطہ کیے جانے پر پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 'یہ آرمی کا کام نہیں ہے اور نہ ہی انتخابات کے انعقاد کے لیے اس کی تربیت کی گئی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سوچے سمجھے بغیر یکطرفہ فیصلے کر رہی ہے جس سے انتخابات پر بڑا سوالیہ نشان لگے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے رابطہ کیے جانے پر کہا کہ حکومت انتخابات کو متنازع بنانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت آئین و قانون سے لاعلم ہے کیونکہ کوئی سیاسی جماعت آرمی کی تعیناتی کی درخواست نہیں کر سکتی، صرف الیکشن کمیشن وفاقی حکومت سے یہ درخواست کر سکتا ہے جو پھر سویلین کی مدد کے لیے آرمی کی مدد طلب کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پولنگ اسٹیشنز کے اندر فوج تعینات کرنے کی بات ہے تو یہ درخواست صرف متعلقہ پریزائیڈنگ افسر کر سکتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں: 'آئندہ عام انتخابات ٹیکنالوجی سے کرانے پر اتفاق ہوگیا'

مسلم لیگ (ن) پہلے ہی الیکشن منصوبے پر تحریری اعتراض اٹھا چکی ہے۔

واضح رہے کہ 12 ستمبر کو منعقد ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات، 2018 کے عام انتخابات کے بعد ملک کی حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان نچلی سطح پر پہلا انتخابی مقابلہ ہوگا۔

یہ انتخابات کورونا وائرس کی وبا اور کنٹونمنٹس میں وارڈز کی دوبارہ حد بندی کے باعث 2019 سے التوا کا شکار ہیں۔

دلچسپ طور پر ان انتخابات کے لیے کسی سیاسی جماعت نے دوسری جماعت کے ساتھ کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا اتحاد قائم نہیں کیا ہے۔

ان انتخابات میں ملک کے 42 کنٹونمنٹ بورڈز کے 219 وارڈز کے جنرل اراکین کے لیے ایک ہزار 559 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں